وفاقی کابینہ نے چینی اور گندم بحران پر فارنزک آڈٹ رپورٹ پبلک کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر شبلی فراز کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ ’رپورٹ پی آئی ڈی کی ویب سائٹ پر ڈالی جائے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم ہمیشہ کہتے ہیں کاروبار کرنے والا سیاست میں بھی کاروبار کرے گا، آج کی رپورٹ سے وزیراعظم کی بات سچ ثابت ہوئی۔
مزید پڑھیں
-
’آٹا 70 روپے کلو لیکن آپ نے گھبرانا نہیں‘Node ID: 453766
-
آٹا بحران: حکومتی دعوؤں کی حقیقت کیا؟Node ID: 454146
-
چینی: رپورٹ میں سیاسی خاندانوں کے نامNode ID: 469496
شہزاد اکبر نے کہا کہ رپورٹ میں شامل تفصیلات کے مطابق سب سے زیادہ زیادتی کاشت کار کے ساتھ ہوئی۔
’ملز امدادی قیمت سے کم قیمت ادا کرتی رہی ہیں جبکہ گنے کے وزن میں بھی بیس سے تیس فیصد کمی دکھائی جاتی رہی۔‘
شہزاد اکبر نے کہا کہ ’2017-18 میں شوگر ملز نے 51 روپے قیمت بتائی جبکہ کمیشن کے مطابق یہ 36 روپے بنتی ہے۔‘
زرداری اور شریف خاندان بھی بحران کے ذمہ دار
فرانزک رپورٹ کے مطابق حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد کی شوگر ملوں کے علاوہ اپوزیشن کی بالخصوص سابق صدر آصف زرداری کے کاروباری شراکت دار اور ساتھی سمجھے جانے والے اومنی گروپ اور شریف خاندان کی شوگر ملوں نے بھی نہ صرف گزشتہ پانچ سال سبسڈی وصول کی بلکہ فرانزک آڈٹ میں کم قیمت اور آف دی ریکارڈ خریداری اور ٹیکس معاملات میں بھی ہیرا پھیری کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اومنی گروپ کی نو شوگر ملیں ہیں جن کے مالک انور مجید خان ہیں نے کہ سبسڈی کا 7.95 فیصد وصول کیا۔ یہ رقم 2324.38 ملین روپے بنتی ہے۔ اومنی گروپ اس سبسڈی سے مستفید ہونے والا چوتھا بڑا گروپ ہے۔
شریف خاندان کی رمضان اور چوہدری شوگر ملوں سمیت پانچ شوگر شوگر ملوں کو پانچ سالوں میں 1041.77 ملین روپے کی سبسڈی ملی جو کل سبسڈی کا 3.77 فیصد بنتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق انکشاف ہوا ہے کہ ٹیکس کی مد میں شوگر سیکٹر کا حصہ عملاً صفر ہو جاتا ہے۔ شوگر ملوں نے جمع کرائے گئے ٹیکس میں سے نصف سے زائد کے ٹیکس ریفنڈ کلیم کیے جبکہ ٹیکس سے کہیں زیادہ سبسڈی وصول کر لی۔
اپوزیشن شخصیات کی شوگر ملوں میں سے اومنی گروپ نے 649.45 ملین روپے ٹیکس جمع کرایا جس میں سے انھوں نے 180.20 ملین روپے کے ٹیکس ریفنڈ جمع کرائے۔ شریف خاندان کی 9 شوگر ملوں نے اگرچہ حاصل کئ گئی سبسڈی 1014.77 سے زائد 1320.90 ملین روپے ٹیکس جمع کرایا لیکن گروپ کی جانب سے 464.97 روپے کے ٹیکس کلیم ریفنڈ جمع کرائے گئے۔
وزرا کی پریس کانفرنس
قبل ازیں پریس کانفرنس میں شہزاد اکبر نے کہا کہ ’2017-18 میں شوگر ملز نے 51 روپے قیمت بتائی جبکہ کمیشن کے مطابق یہ 36 روپے بنتی ہے۔‘
’اسی طرح 2018-19 میں 52 روپے بتائی گئی جو کہ کمیشن کے مطابق 38 روپے بنتی ہے، اسی طرح بعد کے سالوں میں ظاہر کی جانے والی فی کلو قیمت اور کمیشن کے مطابق بتائی جانے والی قیمت میں بہت فرق ہے۔‘
’کمیشن کو ہدایت کی گئی تھی کہ فی کلو چینی کی قیمت نکالی جائے، اس سے قبل کسی کو معلوم نہیں تھا کہ فی کلو چینی کی قیمت کس طرح نکالی جاتی ہے۔‘
ان کے مطابق پچھلے پانچ برس میں چینی کے لیے 29 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔
اس موقع پر شبلی فراز نے کہا ’آج تاریخی دن ہے، ماضی میں بھی تحقیقات ہوتی رہیں لیکن کبھی اس طرح سے رپورٹ سامنے نہیں لائی گئی۔
شبلی فراز کے مطابق وزیراعظم نے تمام غیر منتخب شدہ کابینہ ارکان کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے اثاثوں کی تفصیلات جمع کروائیں۔
معاون خصوصی شہزاد اکبر نے مزید کہا کہ صوبہ سندھ نے چینی کی ایکسپورٹ کے لیے جو سبسڈی دی، اس کا سارا فائدہ اومنی گروپ کی شوگر ملز کو پہنچایا گیا۔
شہزاد اکبر نے بتایا کہ جہانگیر ترین کی جے ڈی ڈبلیو شوگر مل نے اوور انوائسنگ اور اوور بلنگ کی اور غیر قانونی طور پر کرشنگ کی استعداد بڑھائی۔ اسی طرح سلمان شہباز شریف کی مل نے بھی ایسے ہی اقدامات کیے ہیں۔
’آج بھی ٹی ٹیز چل رہی ہیں، افغانستان چینی جاتی ہے تو اس کے پیسے ٹی ٹیز کے ذریعے آتے ہیں، اور اسی طرح باہر بھیجے جاتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ریکوری کے حوالے سے ابھی فیصلے ہونے ہیں۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ کمیشن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریگولیٹرز کی غفلت کے باعث چینی بحران پیدا ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ وزیراعظم کی ہدایت پر عید کے بعد اپنی سفارشات پیش کریں گے۔
آگے کے لائحہ عمل کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر شہزاد اکبر نے کہا کہ کیسز نیب، ایف آئی اے اور انٹی کرپشن کو بھجوانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
خسرو بختیار کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ان کی کوئی شوگر مل نہیں ہے، ان کے بھائی کی ہے، جس کے ساتھ خسرو بختیار کا کوئی تعلق نہیں بنتا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ دیگر ملوں کا بھی فرانزک آڈٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
جہان گیر ترین رد عمل
رپورٹ پر اپنے ردعمل میں پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین نے ٹویٹ کیا کہ ’جھوٹے الزامات پر مجھے دکھ ہوا۔ میں نے ہمیشہ شفاف طریقے سے کاروبار کیا ہے۔ پورا پاکستان جانتا ہے کہ میں نے ہمیشہ کاشت کاروں کو پوری قیمیت ادا کرتا ہوں۔ میں دو بکس نہیں رکھتا اور اپنے تمام ٹیکسز ادا کرتا ہوں۔ میں ہر الزام کا جواب دوں گا اور ان سے بری ہو جاؤں گا۔‘
I am shocked at the kind of false allegations levelled against me. I have always run a clean business. All Pakistan knows I always pay full price to my growers. I DO NOT maintain 2 sets of Books. I pay all my taxes diligently. I will answer every allegation and be vindicated IA.
— Jahangir Khan Tareen (@JahangirKTareen) May 21, 2020