Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'صدارتی ریفرنس کا مشورہ دینے والا روشن دماغ کون ہے؟'

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ صدر بھی جب کوئی موقف لیتے ہیں تو وہ کسی قانون کے تحت ہی ہونا چاہیے (فوٹو: سوشل میڈیا)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں حکومت سے سوال کیا ہے کہ  'وہ روشن دماغ کون ہے جس نے بیوی بچوں کی طرف سے ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی پر جج کے خلاف آرٹیکل 209 کا ریفرنس دائر کرنے کا شاندار مشورہ دیا؟'
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ 'انتہائی شائستگی کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ حکومت نے ریفرنس دائر کرنے میں سنگین غلطی کی۔ 
جمعرات کو سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس کی کارروائی روکنے کے لیے دائر درخواستوں کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ بینچ نے کی۔
وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں کہا کہ عدالت کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کو تحریری معروضات کی شکل دی ہے۔ یہ 27 سوال بنتے ہیں جن کے جوابات دینا چاہتا ہوں۔ 
انھوں نے کہا کہ صدر کا کسی جج کے خلاف ملنے والی معلومات یا ریفرنس بارے مطمئن ہونا لازمی نہیں۔ وہ ان معلومات کو اپنے موقف کے ساتھ سپریم جوڈیشل کونسل بھیج دیتے ہیں۔ 
صدر کی ریفرنس کی قانونی حیثیت جانچنے کی اہلیت کے بارے سوال پر فروغ نسیم نے کہا کہ 'وہ تو پیشے کے لحاظ سے دندان ساز ہیں۔ وزیر اعظم سیاستدان اور کرکٹ لیجنڈ ہیں۔ اس مقصد کے لیے قانونی ماہرین، سیکرٹریز اور حکومتی مشینری سے رائے لیتے ہیں۔ اسی لیے وہ سمریاں اور نوٹنگ ساتھ لایا ہوں۔' 

کیس کی سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی بینچ نے کی (فوٹو:اے ایف پی)

جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ صدر کو دیکھنا چاہیے تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر اپنے بیوی بچوں کی جائیداد ظاہر کرنے کی کوئی قانونی پابندی بھی تھی یا نہیں؟
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ '209 محض ایک آرٹیکل نہیں بلکہ یہ عدلیہ کی آزادی کا تحفظ بھی کرتا ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ صدر کو اپنا ذہن استعمال کرنا چاہیے تھا۔ ریفرنس دائر کرنا کوئی چھوٹا معاملہ نہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'آرٹیکل 48 کے تحت صدر ایک بار ریفرنس واہس بھیج سکتے تھے۔ ہم نے دیکھنا ہے کہ صدر کی رائے آزادانہ تھی یا وہ کسی پر انحصار کر ریے تھے۔ '
جسٹس منصور علی شاہ نے فروغ نسیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ایسٹ ریکوری یونٹ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ وہ پہلے ایسٹ ریکوری یونٹ کے بارے میں بتا دیتے ہیں۔ 
انھوں نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 2018 میں سپریم کورٹ نے بیرون ممالک میں پاکستانیوں کی لوٹی ہوئی رقم واپس لانے کے حوالے سے از خود نوٹس لیا تھا۔ اس کیس کے فیصلے کے نتیجے میں ایسٹ ریکوری یونٹ کا قیام عمل میں لایا گیا۔
فروغ نسیم نے متعلقہ فیصلہ پڑھ کر سنانا شروع کیا تو جسٹس یحیٰی آفریدی نے انہیں ٹوک دیا اور کہا کہ فیصلے میں تو ایسٹ ریکوری یونٹ کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔

فروغ نسیم نے بتایا کہ لوٹی ہوئی رقم واپس لانے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی گئی (فوٹو:اے ایف پی)

فروغ نسیم نے بتایا کہ 'میں نے یہ نہیں کہا کہ عدالت نے حکم دیا بلکہ عدالت نے گائیڈ لائنز دی تھیں جن کی روشنی میں ایسٹ ریکوری یونٹ قائم کیا گیا۔'
انھوں نے بتایا کہ لوٹی ہوئی رقم واپس لانے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی گئی جس کی سربراہی وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کو دی گئی۔
اس ٹاسک فورس نے ایسٹ ریکوری یونٹ کے قیام کی منظوری دی جس کا قیام رولز آف بزنس کے تحت عمل میں لایا گیا۔
فروغ نسیم نے متعلقہ رولز آف بزنس پڑھ کر سنائے جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 'رولز آف بزنس میں بھی ایسٹ ریکوری یونٹ کا لفظ نہیں ہے۔ آپ فیڈرل انٹیلی جینس کو ایسٹ ریکوری یونٹ کہہ رہے ہیں۔'
فروغ نسیم نے جواب دیا کہ رولز آف بزنس وزیر اعظم کو وقت کے ساتھ تبدیلی کا اختیار دیتے ہیں۔ 
دوران سماعت جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ فرض کریں کہ ایسٹ ریکوری یونٹ موجود نہیں تو جج کے خلاف شکایت صدر یا سپریم جوڈیشل کونسل کو جائے گی؟ جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ جی ہاں انھی کے پاس جائے گی۔ 
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 'نیب ایف آئی اے اور ایف بی آر موجود ہیں۔ ایسٹ ریکوری یونٹ کو کابینہ کے بجائے داخلہ ڈویژن کے تحت ہونا چاہیے تھا جس کے پاس پہلے ہی ایسے ادارے موجود ہیں۔ جن کو کام کرنا تھا وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور اے آر یو تحقیقات کر رہا یے۔'
فروغ نسیم بولے کیا ایف آئی اے اعلیٰ عدلیہ کے جج کے خلاف تحقیقات کا اختیار رکھتا ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا 'تو کیا ایسٹ ریکوری یونٹ کو یہ اختیار حاصل ہے؟'
جسٹس یحیٰی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم نے پہلے سے موجود اداروں سے کام لینے کے بجائے ایک نجی شخص کو بلایا اور ان سے کہا کہ وہ لوٹی ہوئی رقم واپس لائیں۔ 
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ ججز احتساب سے بالاتر ہیں۔ ہم سب جواب دہ ہیں۔ اس شکایت پر ایف بی آر کارروائی کا مجاز تھا۔

عدالت نے فروغ نسیم کو کہا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کی کارکردگی عدالت کے سامنے رکھیں (فوٹو:اے ایف پی)

فروغ نسیم نے ایسٹ ریکوری یونٹ کے ٹی او آرز پڑھنا شروع کیے جن میں درج تھا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کسی بھی قانون کی خلاف ورزی پر معاملہ متعلقہ ادارے کو بھیجے گا۔
ٹیکس قوانین کا معاملہ ایف بی آر کو بھیجنے کا ذکر آیا تو جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ یہاں پر بات ختم ہو جاتی ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کہ یہ تو سارے معاملے کا نچوڑ ہے۔ 
اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ٹی او آرز کہتے ہیں کہ معاملہ نیب، ایف آئی اے یا ایف بی آر کو بھیجا جائے۔ ایسٹ ریکوری یونٹ نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا نتیجہ کیسے نکالا؟ ایک دن ایک مسٹر ڈوگر آئے انھوں نے ایسٹ ریکوری یونٹ کے چیئرمین کو جج صاحب کے بیوی بچوں کی جائیداد کا بتایا اورانھوں نے تحقیقات شروع کر دیں۔
انہوں نے کہا کہ 'نیب اور ایف آئی اے کے بجائے آرٹیکل 209 کے تحت ریفرنس دائر کرنے کا روشن آئیڈیا آیا اور ریفرنس دائر کر دیا۔ ایسٹ ریکوری یونٹ نے قانون کے خلاف یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے؟ دراصل یہ فیصلہ کرنا بھی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے جس کے نتائج سنگین ہوں گے۔'
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر آپ کے منی لانڈرنگ اور فارن ایکسچینج ریگولیشن کی خلاف ورزی کے الزام کو مان بھی لیا جائے تو یہ قوانین 2015 اور 2016 میں بنے اس سے پہلے منی لانڈرنگ جرم ہی نہیں تھا۔ انتہائی شائستگی سے کہہ رہا ہوں کہ دو سو نو کا ریفرنس بنانے میں حکومت سے سنگین غلطی ہوئی ہے۔ صدر بھی جب کوئی موقف لیتے ہیں تو وہ کسی قانون کے تحت ہی ہونا چاہیے۔ 

عدالت نے ریمارکس دیے کہ 'آپ ہمارے سامنے جج کا وہ کام لائیں جس سے عوام کا اعتماد متاثر ہوا ہو' (فوٹو:سوشل میڈیا)

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ صدر جب کسی ادارے یا فرد کی طرف سے بھیجی گئی معلومات سے اتفاق کرتے ہیں تو اس ریفرنس کو سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجتے ہیں۔ یہ  آئیڈیا کس روشن دماغ کا تھا کہ معاملہ ایف بی آر کے بجائے صدر کو بھیجا جائے۔
اس پر فروغ نسیم نے کہا کہ وہ جانتے ہیں لیکن ابھی بتائیں گے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ معاملہ یہ نہیں ہے کہ صدر نے فیصلہ قانون کے تحت کیا یا نہیں بلکہ معاملہ ان معلومات کا ہے جو ریفرنس میں موجود ہیں۔ صدر نے معلومات جوڈیشل کونسل کو بھیجیں جس نے سننے کا فیصلہ کیا اور شوکاز نوٹس جاری کیا۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اسی وجہ سے تو اب یہ معاملہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ اسی وجہ سے تو 58 دو بی کے کیس آتے تھے اور وہ ختم کر دی گئی۔ آپ تو تسلیم کر رہے ہیں کہ آپ کا ریفرنس ناقص اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ قانون تو کہتا ہے کہ آپ ایف بی آر جاتے لیکن آپ نے ریفرنس دائر کر دیا۔
'آپ ہمارے سامنے جج کا وہ کام لائیں جس سے عوام کا اعتماد متاثر ہوا ہو۔ دس ہزار کی ٹیکس چوری پر 209 کا ریفرنس مناسب نہیں۔ اس نادہندگی کے علاوہ کوئی جرم ہے تو سامنے لائیں۔'
عدالت نے فروغ نسیم کو ہدایت کی کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کی کارکردگی سمیت دیگر تمام سوالات کا جواب سوموار کو ہونے والی سماعت میں عدالت کے سامنے رکھیں۔ کیس کی مزید سماعت سوموار ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔

شیئر: