گذشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں کورونا کے علاوہ ٹائیفائیڈ بخار میں مبتلا مریضوں کی بڑی تعداد داخل ہوئی ہے جس کے بعد ماہرین تحقیق کر رہے ہیں کہ کیا ملک میں ٹائیفائیڈ بھی پھیل رہا ہے یا اس کا کورونا وائرس سے کوئی تعلق ہے۔
مزید پڑھیں
-
پاکستان میں ٹائیفائیڈ کی نئی ویکسینNode ID: 443536
-
کورونا کے علاج میں پاکستانی ڈاکٹروں کی اہم پیشرفتNode ID: 471511
-
کلوروکوئین کورونا کے علاج کے لیے غیر موثر دوا ثابتNode ID: 482931
بالخصوص صوبہ بلوچستان کے کئی شہروں میں کورونا کے ساتھ ساتھ ٹائیفائیڈ کی بیماری کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے اور ڈاکٹرز کے مطابق بچے بھی بڑی تعداد میں اس بیماری کا شکار ہو رہے ہیں۔
کوئٹہ کے دو بڑے سرکاری ہسپتالوں سول ہسپتال اور بولان میڈیکل کمپلیکس میں فرائض انجام دینے ولے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں کوئٹہ، پشین، چمن، مستونگ، بولان، سبی، نصیرآباد ،تربت اور دیگر علاقوں میں ’ملٹی ڈرگ ریزیسٹنٹ‘ یعنی ادویات کے خلاف مزاحمت کرنے والے ٹائیفائیڈ کے مریضوں میں اضافہ ہوا ہے۔
سول ہسپتال کوئٹہ کے شعبہ میڈیسن کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر خالد شاہ کا کہنا ہے کہ ٹائیفائیڈ کی یہ قسم خطرناک شکل اختیار کر گئی ہے اور اب بیشتر ادویات اس بیماری کے خلاف مدافعت پیدا کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔
'ٹائیفائیڈ کی یہ جدید شکل اب پھیل رہی ہے اور صرف سول ہسپتال کوئٹہ میں قائم ایک وارڈ میں دو ماہ کے دوران تقریباً 60 سے 70 ایسے مریضوں کو لایا گیا ہے جن میں ’ملٹی ڈرگ ریزیسٹنٹ‘ یا ’ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ‘ کی تشخیص ہوئی۔'
سول ہسپتال کوئٹہ کے شعبہ اطفال کے ڈاکٹر امین اللہ خلجی نے اردو نیوز کو بتایا کہ حالیہ مہینوں میں ان کے پاس ’ایکس ڈی آر ٹائیفائیڈ‘ سے متاثرہ بچوں کی بڑی تعداد آئی ہے۔
’ہر ہفتے کم از کم بیس سے پچیس کم عمر مریضوں کو لایا جاتا ہے جن پر بیشتر انٹی بائیوٹکس اثر نہیں کرتیں۔ مجبوراً انہیں زیادہ طاقتور اینٹی بائیوٹکس دینا پڑتی ہیں۔‘
ڈاکٹر خلجی نے بتایا کہ ہسپتال پہنچنے والے بیشتر بیمار بچوں کو بچا لیا جاتا ہے مگر علاج نہ ملنے کی صورت میں یہ بیماری جان لیوا بھی ثابت ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹائیفائیڈ مضر صحت کھانوں، آلودہ پانی، ہاتھ نہ دھونے اور دیگر کئ وجوہات کی بنا پر پھیلتا ہے۔ اس کے جراثیم منہ کے ذریعے آنتوں میں چلے جاتے ہیں جس کے بعد یہ آنتوں میں زخم کردیتا ہے۔ اس کی علامات میں پیٹ میں درد، بھوک کا نہ لگنا، بخار، قبض یا اسہال وغیرہ شامل ہیں۔
ڈاکٹر خلجی کے مطابق بلوچستان میں یہ بیماری ان علاقوں میں زیادہ پھیل رہی ہے جہاں آلودہ پانی پیا جاتا ہے۔
صوبہ بلوچستان کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز ڈاکٹر محمد سلیم ابڑو نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ٹائیفائیڈ پھیلنے کے بعد ماہرین نے تحقیق شروع کردی ہے کہ آیا اس کا تعلق کورونا سے تو نہیں؟
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ہمیں شکایات مل رہی تھیں کہ صوبے کے بعض علاقوں میں لوگوں کو بخار، جسم میں درد اور ان جیسی دوسری علامات ظاہر ہو رہی ہیں اور مقامی لیبارٹریوں سے کرائے گئے ٹیسٹوں کے ذریعے ان میں ٹائیفائیڈ یا ملیریا کی تشخیص ہو رہی ہے۔'
محکمہ صحت نے رواں ہفتے خصوصی ٹیم بولان کے علاقے مچھ اور بالا ناڑی بجھوائی۔ ٹیم نے وہاں کم از کم 500 ایسے افراد کے خون کے نمونے لے کر لیبارٹری بھجوائے جنہیں بخار اور جسم میں درد کی شکایات تھیں۔ ان افراد کے کورونا ٹیسٹ بھی کرائے مگر ان میں کورونا کی تشخیص نہیں ہوئی۔
اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے شعبہ متعدی امراض کی پروفیسر ڈاکٹر نسیم نے اردو نیوز کے نامہ نگار زبیر علی خان کو بتایا کہ 'بہت سے لوگوں نے یہ شکایت کی ہے کہ انہیں کورونا کے ساتھ ٹائیفائیڈ بھی ہے یا وہ کہتے ہیں کہ علامات کورونا کی ہیں لیکن تشخیص ٹائیفائیڈ کی ہوئی ہے۔ اس کی درست تحقیقات کے لیے مزید بہتر ٹیسٹنگ کی ضرورت ہے۔'
اسلام آباد کے ہی ایک بڑے نجی ہسپتال شفا انٹرنیشنل کے شعبہ وائرل ڈیزیز کے ڈاکٹر اعجاز احمد نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'ٹائیفائیڈ اور کورونا وائرس کا ایک دوسرے سے براہ راست تعلق ابھی تک ثابت نہیں ہوسکا ہے، کورونا ایک وائرس ہے اور انسانوں میں ایک دوسرے سے پھیل رہا ہے جبکہ ٹائیفائیڈ بخار کھانے پینے میں بے احتیاطی سے ہوتا ہے۔'
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے اردو نیوز کے نمائندے توصیف رضی ملک کو بتایا کہ 'پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اس وقت تین طرح کی بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں، کورونا وائرس، ٹائیفائیڈ اور انفلوئنزا۔'
ڈاکٹر قیصر سجاد کا کہنا تھا کہ ان وائرس کی علامات کچھ حد تک مماثلت رکھتی ہیں اس لیے لوگوں کو کورونا کا شبہ ہو رہا ہے۔
ڈاؤ یونیورسٹی اوجھا کیمپس کراچی میں کورونا وارڈ کے انچارج پروفیسر امان اللہ عباسی کے مطابق کورونا وائرس اور ٹائیفائیڈ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں اور اس بات کا کوئی واضح ثبوت موجود نہیں۔
تاہم ان کے مطابق ٹائیفائیڈ وہ وائرس ہے جو انسانی جسم میں موجود رہتا ہے اور قوت مدافعت کم ہونے کی صورت میں اثر دکھاتا ہے۔
کورونا وائرس کا شکار افراد کی قوتِ مدافعت انتہائی کم ہو جاتی ہے، پھر چاہے وہ صحت یاب بھی ہو جائیں تو اس بات کا امکان رہتا ہے کہ ٹائیفائیڈ یا کوئی اور وائرس کمزور قوتِ مدافعت کی وجہ سے حملہ آور ہو۔ اس سے زیادہ کورونا اور ٹائیفائیڈ کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔'‘
لاہور میں ’اردو نیوز‘ کے نمائندے رائے شاہنواز کے مطابق حال ہی میں لاہور میں گردن توڑ بخار، دل، گردوں اور ٹائیفائیڈ کے مریضوں میں کورونا مثبت آیا اور ان میں سے کئی جانبر نہیں ہو سکے۔
ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ 'کوماربیڈیٹی' یعنی ایک سے زیادہ بیماریوں کا شکار ہونا ہے، ایسے افراد پر کورونا کا وار زیادہ جان لیوا ثابت ہو رہا ہے۔
راشد لطیف میڈیکل کالج لاہورکے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سلمان شیروانی نے بتایا کہ ’اس کو آپ اس طرح نہیں دیکھ سکتے کہ جس کو کورونا کی بیماری لاحق ہو چکی ہو تو اس کورونا کی وجہ سے دیگر بیماریاں بھی حملہ آور ہو جائیں، بلکہ یہ ایسے ہے کہ جسم میں پہلے سے بیماری موجود ہے اور کسی بھی طریقے سے کورونا لاحق ہو گیا کیونکہ جسم کا مدافعتی نظام پہلے ہی کمزور ہو چکا ہے تو ایسی صورت حال میں کورونا کا وار جان لیوا ثابت ہو رہا ہے۔'
ڈاکٹر سلمان کا کہنا ہے کہ 'کورونا وائرس میں ماربیڈیٹی یعنی انفیکشن پھیلانا اور مارٹیلٹی یعنی مار دینے کی حد تک بیماری کو لے جانا یہ دونوں خصلتیں پائی جاتی ہیں اس لیے یہ وائرس انتہائی خطرناک ہے۔'
کیا ٹائیفائیڈ کی ذمہ دار ناقص ٹیسٹنگ ہے؟
ڈاکٹر خالد شاہ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ٹائیفائیڈ اور ملیریا ’اینڈیمک‘ بیماریاں ہیں جو ہر وقت ہماری آبادیوں میں پائی جاتی ہیں ۔اگرچہ یہ بیماری پھیلی ہوئی ہے مگر حالیہ دنوں میں لوگ اپنی صحت کے بارے میں زیادہ حساس رہتے ہیں اور معمولی بخار وغیرہ کی صورت میں بھی ٹیسٹ کراتے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ ٹائیفائیڈ کی تشخیص مختلف ٹیسٹوں سے کی جاتی ہے جن میں وڈال اورٹائیپو ڈاٹ ٹیسٹ قابل اعتبار نہیں کیونکہ ان دو طریقوں سے کیے گئے ٹیسٹ میں بیماری ہونے کے دو تین سال بعد بھی ٹیسٹ کے نتائج مثبت آتے ہیں۔
ٹائیفائیڈ کی تشخیص کے لیے سب سے بہترین طریقہ بلڈ کلچر ٹیسٹ کا ہے جو باقی ٹیسٹوں کے مقابلے میں نسبتاً مہنگا ہے اور اس کا نتیجہ بھی ایک ہفتے بعد آتا ہے۔
ڈاکٹر خالد شاہ کا کہنا ہے کہ گلی محلوں اور دیہاتوں میں قائم غیر معیاری کلینکس اور لیبارٹریوں میں آج بھی پرانا طریقہ کار استعمال کیا جا رہا ہے۔
'تندرست لوگ بھی جب ٹیسٹ کرانے جاتے ہیں تو بیشتر کے نتائج مثبت آجاتے ہیں۔ یعنی جو شخص خوب کھا پی رہا ہوتا ہے اسے بھی ٹائیفائیڈ میں مبتلا قرار دیا جاتا ہے حالانکہ ٹائیفائیڈ سے بیمار شخص کو پیٹ میں درد رہتا ہے اور اسے عام شخص کی طرح بھوک نہیں لگتی۔'
ڈاکٹر نسیم بھی ملک کی بہت سی لیبارٹریوں سے کرائے گیے ٹائیفائیڈ کے ٹیسٹوں کو ناقابل اعتبار قرار دیتی ہیں۔
'دراصل کچھ لیبارٹریاں ٹائیفائیڈ بخار کی تشخیص کے لیے ٹائیفیڈاٹ ٹیسٹ تجویز کرتے ہیں جو کہ قابل اعتبار نہیں اور پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں اس ٹیسٹ کو ٹائیفائیڈ کے لیے اب قابل اعتبار نہیں سمجھا جاتا۔'
انہوں نے کہا کہ 'اگر جسم میں کوئی بھی وائرس موجود ہو تو ٹائیفیڈاٹ ٹیسٹ مثبت آئے گا۔ کورونا وائرس کے علاوہ بھی دیگر کئی وائرس جسم میں موجود ہوتے ہیں اس لیے ماہرین اب اس ٹیسٹ کو تجویز نہیں کرتے۔'
یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل کراچی اور حیدرآباد سمیت پاکستان کے صوبہ سندھ کے دیگر شہروں میں ٹائیفائیڈ کے ہزاروں کیسز سامنے آنے کے بعد نومبر 2019ء میں پاکستان دنیا کا پہلا ملک بنا جس نے عالمی ادارہ صحت سے منظور شدہ ٹائیفائیڈ سے بچاﺅ کی ویکسین ’ٹی سی وی ‘ کا استعمال شروع کیا۔
اس وقت صوبہ سندھ کی حکومت نے دو ہفتوں کی مہم کے دوران لاکھوں بچوں کو ٹائیفائیڈ سے بچاﺅ کی ویکیسن لگائی ہے۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں