2014 کے بعد پولیو کے سب سے زیادہ کیسز 2019 میں رپورٹ ہوئے۔ فوٹو اے ایف پی
2016 کے بعد نائیجریا سے کوئی پولیو کیس رپورٹ نہ ہونے کے بعد عالمی ادارہ صحت افریقی خطے کو 2020 میں پولیو وائرس سے پاک قرار دیے جانے پر غور کررہا ہے۔ اب صرف پاکستان اور افغانستان ہی دنیا کے دو ایسے ممالک رہ گئے ہیں جہاں یہ وائرس بدستور بچوں کو اپاہج کر رہا ہے۔
2018 میں پولیو کیسز کی تعداد میں 96 فیصد کمی لا کر پاکستان بھی پولیو سے پاک قرار دیے جانے کی راہ پر گامزن تھا اور سال 2019 کو اس ہدف کے حصول میں اہم قرار دیا جارہا تھا مگر یہ سال مایوس کن ثابت ہوا۔ ان 12 مہینوں میں رپورٹ ہونے والے پولیو کیسز کی تعداد پچھلے چار سالوں کی مجموعی تعداد سے بھی 22 فیصد زیادہ ہے۔
انسداد پولیو پروگرام پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں ملک بھر میں پولیو کے 115کیس رپورٹ ہوئے جبکہ 2018 میں یہ تعداد صرف 12 تھی۔ 2017 میں آٹھ، 2016 میں 20 اور 2015 میں 54 بچے پولیو وائرس کا شکار ہوئے۔ اس سال سامنے آنے والے115 میں سے 81یعنی70فیصد پولیو کیسز صوبہ خیبر پختونخوا سے رپورٹ ہوئے۔ 19کیسز سندھ ،نو بلوچستان اور چھ کیسز پنجاب سے سامنے آئے۔ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے کوئی پولیو کیس سامنے نہیں آیا۔
2018 میں پاکستان کے صرف پانچ اضلاع پولیو وائرس سے متاثر تھے لیکن 2019 میں یہ وائرس ملک کے25 سے زائد اضلاع تک پھیل گیا ہے۔ انسداد پولیو پروگرام کے حکام کا کہنا ہے کہ پولیو کیسز کی تعداد میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ والدین کا اپنے بچوں کو ویکسین پلانے سے انکار ہے۔
خیبر پختونخوا کے پولیو ایمرجنسی سینٹر کے کوآرڈینیٹر عبدالباسط نے اردو نیوز کو بتایا کہ خیبر پختونخوا میں پچھلے سال پولیو کے کیسز کی تعداد صرف آٹھ تھی۔ اس سال متاثرہ بچوں کی تعداد میں اضافے کی بڑی وجہ اپریل میں پشاور کے علاقے ماشو خیل میں پیش آنے والا واقعہ ہے جب قومی انسداد پولیو مہم کے دوران یہ افواہ پھیلائی گئی کہ ویکسین لینے سے سینکڑوں بچے بیمار ہوگئے۔
عبدالباسط کے مطابق اس جھوٹے واقعہ کا پولیو کی مہم پر بہت منفی اثر پڑا اور رفیوزل (بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کرنے والے والدین) کی تعداد میں بہت اضافہ ہوا۔ جنوری میں پورے صوبے میں 38 ہزار والدین انکاری تھے جو اگست میں بڑھ کر دو لاکھ 50 ہزار تک پہنچ گئے تھے۔
انسداد پولیو پروگرام کی رپورٹ کے مطابق کراچی کے علاوہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ہائی رسک قرار دیے گئے 11 اضلا ع میں انکاری والدین کی تعداد اپریل 2019 میں 20 فیصد تک پہنچ گئی جو اس سے پہلے پانچ فیصد سے بھی کم تھی۔
عبدالباسط نے بتایا کہ پولیو کے مختلف اقسام کے وائرس پہلے سے ہی گردش میں تھے جب رفیوزل کی تعداد میں اضافہ ہوگیا تو خطرات بڑھ گئے۔ اپریل کے بعد اگست میں ہونے والی پولیو کی ملک گیر مہم میں لوگوں کی جانب سے کافی زیادہ مزاحمت سامنے آئی۔ سب سے زیادہ مزاحمت بنوں میں ہوئی۔ پشاور، لکی مروت اور دیگر اضلاع میں بھی یہ تعداد زیادہ تھی۔ انہوں نے بتایا کہ صوبے میں رپورٹ ہونے والے پولیو کیسز میں 60 سے زائد کا تعلق صرف دو اضلاع، بنوں اور لکی مروت سے ہے۔
وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے مطابق پشاور واقعے کے بعد 14 لاکھ والدین نے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کیا۔ اس تشویشناک صورتحال کے بعد ہم نے اپنے پورے پروگرام کا از سرنو جائزہ لیا اور قومی اور صوبائی سطح پر انسداد پولیو پروگرام کو دوبارہ ترتیب دیا۔
’ہم نے ملک بھر میں 40 ایسی یونین کونسلز کی نشاندہی کی جہاں پر سب سے زیادہ مزاحمت ہورہی تھی۔ ان میں بیشتر یونین کونسلز خیبر پختونخوا، آٹھ یونین کونسلز کراچی اور کچھ یونین کونسلز کوئٹہ، قلعہ عبداللہ اور پشین کے اضلاع کی تھیں۔ ہم نے مقامی نمائندوں، علما، ڈاکٹرز سب کی مدد لیں اور خصوصی کمیٹیاں بناکر گھر گھر جاکر انکاری والدین کو قائل کیا۔‘
ڈاکٹر ظفر مرزا نے دعویٰ کیا کہ دسمبر کی قومی مہم میں چار کروڑ 39 لاکھ بچوں کو پولیو سے بچاﺅ کے قطرے پلانے کا ہدف مقررکیا گیا تھا۔ دو لاکھ 65 ہزار رضا کاروں کی مدد سے ہم نے 99 فیصد ہدف حاصل کرلیا جو ملک کی تاریخ میں سب سے کامیاب ریکارڈ ہے۔ اس مہم میں پاک فوج اور دیگر سیکورٹی فورسز کے ایک لاکھ جوان بھی شامل تھے۔
انہوں نے کہا کہ انکاری والدین کی تعداد 14 لاکھ سے کم ہوکر ایک لاکھ 30 ہزار تک آگئی ہے۔ اگر ہم اس طرح کی چار پانچ قومی مہم چلائیں تو انشاءاللہ پاکستان سے پولیو کا صفایا ہو جائے گا۔
عالمی ادارہ صحت کے ذیلی اداروں نے 2019ء کو پولیو کے خاتمے کی کوششوں میں ناکامی پر بھیانک سال قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ سے منسلک ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ، انڈیپنڈنٹ مانیٹرنگ بورڈ، گلوبل پولیو اریڈیکیشن پروگرام اورانٹرنیشنل ریگولیشن کی ایمرجنسی کمیٹی نے اپنے مختلف اجلاسوں میں پاکستان میں پولیو کے پھیلاﺅ پر اپنی تشویش ظاہرکیا اور اسے دنیا کیلئے خطرہ قرار دیا۔ ان اجلاسوں میں پاکستان میں انسداد پولیو پروگرام پر بھی تنقید کی گئی۔
ڈبلیو ایچ او سے وابستہ انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز کی ایمرجنسی کمیٹی نے 11 دسمبر2019ء کو جنیوا میں منعقدہ اپنے 23 ویں اجلاس میں بھی پاکستان خاص طور پر خیبر پختونخوا میں پولیو وائرس کے پھیلاﺅ اور افغانستان اور پاکستان کے درمیان وائرس کی منتقلی پر تشویش کا اظہارکیا۔
انسداد پولیو سینٹر خیبر پختونخوا کے کوآرڈینیٹر عبدالباسط کے مطابق خیبر پختونخوا میں پولیو کے کیسز میں اضافے کی ایک اوروجہ ملک گیر مہم میں تاخیر بھی تھی۔ پشاور واقعہ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے والدین کو قائل کرنے میں کافی محنت اور وقت لگا۔ انسداد پولیو کی قومی مہم اگست اوراس کے بعد اب جاکر دسمبر میں چلائی گئی۔ تین چار ماہ کے دوران پولیو وائرس کافی پھیل گیا۔
انسداد پولیو کے قومی پروگرام کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوری سے اکتوبر تک پولیو کے حوالے سے قرار یے گئے ہائی رسک اضلاع سمیت ملک میں 65 مختلف سے حاصل کیے گئے اوسطاً 40 فیصد سے زائد ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس پائے گئے۔ اکتوبر 2019ء میں 43 فیصد ماحولیاتی نمونوں کے نتائج مثبت آئے۔ اس کے مقابلے میں اکتوبر 2018ء کے صرف 18 فیصد ماحولیاتی نمونوں کے ٹیسٹ میں پولیو وائرس کی موجودگی ثابت ہوئی تھی۔
آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے صوبے پنجاب کے ماحولیاتی نمونوں میں بھی پولیو وائرس پایا گیا ہے۔ اس سال اس صوبے میں بھی 6 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
سندھ میں پولیو کے کیسز کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ، جامشورو، سکھر اور ٹنڈوالہ یار سے رپورٹ ہوئے ہیں۔ محکمہ صحت سندھ کے حکام کا کہنا ہے کہ صوبے میں پولیو وائرس کے پھیلاﺅ کی وجہ بلوچستان اور خیبر پشتونخوا کے ایسے علاقوں سے لوگوں کی آمد ہے جہاں کے ماحول میں یہ وائرس پایا جاتا ہے۔
تاہم کوئٹہ میں انسداد پولیو مرکز سے وابستہ ڈاکٹر آفتاب کاکڑ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کوئٹہ، پشین اور قلعہ عبداللہ پر مشتمل ہائی رسک قرار دیئے گئے کوئٹہ بلاک کے ماحولیاتی نمونوں کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ یہاں پولیو کا مقامی وائرس موجود نہیں۔ یہاں ہمیشہ باہر سے وائرس آتا ہے۔ یہاں افغانستان، سندھ، خیبر پشتونخوا کے پولیو وائرس پائے گئے ہیں۔‘
آفتاب کاکڑ کے مطابق پاک افغان چمن سرحد پر ہر روز 30 سے 35 ہزار افراد آتے جاتے ہیں۔ افغانستان میں امن وامان کی خراب صورتحال کے باعث پاکستانی سرحد سے ملحقہ ایک بڑے حصے میں پولیو مہم نہیں چلائی جارہی ،پچاس لاکھ بچے پولیو سے محروم ہیں،وہاں سے آنے والا ہر شخص وائرس لیکر آتا ہے۔ اسی طرح سندھ ، خیبر پشتونخوا اور پنجاب سے بھی بلوچستان میں آمدروفت زیادہ ہے ۔ ہم بین الاقوامی اور بین الصوبائی سرحدوں پر آنے جانے والوں کو پولیو سے بچاﺅ کے قطرے پلاتے ہیں مگر اس کے باوجود یہاں پر باہر سے پولیو وائرس آجاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں پولیو سے متعلق غلط تصورات بھی وائرس کے پھیلاﺅ کی بڑی وجہ ہے۔ پشاور واقعہ کے اثرات بلوچستان پر بھی پڑے ۔کوئٹہ، قلعہ عبداللہ اور پشین میں انکاری والدین کی تعداد 50 سے60 ہزار تک پہنچ گئی جنہیں قائل کرنے کے لیے ہمیں خصوصی کوششیں کرنا پڑیں۔
ڈاکٹر آفتاب کاکڑ نے بتایا کہ بلوچستان میں اس سال پولیو سے متاثر ہونےو الے تمام 9 بچوں کو ان کے والدین نے پولیو کے قطرے نہیں پلائے تھے یا ان تک ٹیم نہیں پہنچی ۔ انہوں نے کہا کہ ان 9 بچوں میں سے بھی 7 لڑکے ہیں۔ لوگ اپنے کم عمر بیٹوں کو گھر گھر جانے والی پولیو ٹیموں سے چھپاتے ہیں کیونکہ ان کے ذہن میں پولیو سے متعلق یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ مرد کے تولدی نظام پر اثر انداز ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پولیو وائرس سے متعلق لوگوں کے ذہنوں میں پائے جانے والے شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کا خاتمہ ضروری ہے اس کے لیے ہم ہر سطح پرکوششیں کررہے ہیں۔ ماحول میں پولیو وائرس کی موجودگی کی وجہ سے ہر بچے کو اس مرض سے خطرہ ہے اوربچاﺅ کا واحد راستہ ویکسین ہے جو مکمل طور پر محفوظ ہے۔
ڈاکٹر آفتاب کے بقول پولیو ویکسین آنتوں میں پندرہ سے بیس دنوں تک رہتا ہے اس کے بعد یہ ویکسین نکل جاتا ہے اس لئے ہم متاثرہ اضلاع میں ہر چالیس دن میں پولیو مہم چلاتے ہیں۔ جن اضلاع سے پولیو وائرس رپورٹ نہیں ہوتا مثال کے طور پر تربت اور پنجگور وہاں ہم چار مہینوں میں صرف ایک بار مہم چلاتے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان میں 2014ء کے بعد ایک سال کے دوران پولیو کیسز کے سب سے زیادہ کیسز 2019ء میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ 2014ء میں پولیو سے306 بچے متاثر ہوئے تھے جس کے بعد عالمی ادارہ صحت کی سفارش پر پاکستان سے بیرون ملک سفر کرنے والے تمام افراد کیلئے پولیو سے بچاﺅ کے قطرے پینا لازمی قرار دیا گیا۔
ڈاکٹر آفتاب کاکڑ کا کہنا ہے کہ پاکستان نے جلد پولیو وائرس کا خاتمہ نہ کیا تو عالمی سطح پر مشکلات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ عالمی برادری سفری پابندیوں میں مزید سختی کرسکتی ہے۔
افغانستان میں 2019 میں 26 کیسز رپورٹ ہوئے تاہم صحت کے شعبے میں کام کرنے والے حکام کا ماننا ہے کہ متاثرہ بچوں کی اصل تعداد رپورٹ ہونے والے کیسز سے کہیں زیادہ ہے۔ جنگی صورتحال کی وجہ سے انسداد پولیو پروگرام کو ملک کے تمام حصوں تک رسائی حاصل نہیں۔