سشانت سنگھ راجپوت کی بے وقت موت کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ وہ ایک کامیاب اداکار تھے، ہینڈ سم بھی اور جوان بھی، ان کے پاس شہرت بھی تھی اور عزت بھی، تو پھر ایسا کیا ہوا کہ انہوں نے خود اپنی زندگی کی ڈور کاٹ دی؟
ان میں سے کسی بھی سوال کا کوئی آسان جواب نہیں ہے۔ کسے معلوم کہ ان کی ذاتی زندگی میں کیا چل رہا تھا اور اگر معلوم ہو بھی تب بھی ان کی پرسنل زندگی کی تفصیلات میں ہماری دلچسپی کیوں ہونی چاہیے؟
لیکن ان کی موت کے بعد سے بھلے ہی چند دنوں کے لیے ہی سہی توجہ مینٹل ہیلتھ یا ذہنی صحت پر مرکوز ہوئی ہے۔
ماہرین نفسیات سب سے زیادہ ایک بات پر زور دے رہے ہیں اور وہ یہ کہ چاہے ڈپریشن ہو، جو ایک بہت کامن بیماری ہے، یا کچھ اور، ذہنی بیماریوں کا علاج موجود ہے، انہیں کنٹرول کیا جاسکتا ہے، اور انہیں اسی طرح ٹریٹ کیا جانا چاہیے جیسے دوسری جسمانی بیماریوں کو کیا جاتا ہے۔ جب بخار چڑھتا ہے تو آپ بار بار ٹیمپریچر چیک کرتے ہیں اور ایک دو دن میں نہ اترے تو فوراً بھاگ کر ڈاکٹر کا رخ کرتے ہیں تو پھر ذہنی بیماریوں کے اعتراف اور علاج میں کیا شرم ہے؟
مزید پڑھیں
-
اسمارٹ فون کا زیادہ استعمال ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے، تحقیقNode ID: 166616
-
سشانت سنگھ راجپوت نومبر میں شادی کرنے والے تھے؟Node ID: 485406
-
ممبئی پولیس کا سشانت سنگھ کی موت کی تحقیقات کا فیصلہNode ID: 485661
مسئلہ کچھ آگاہی کا ہے اور کچھ طبی سہولیات کی دستیابی کا۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق انڈیا جیسے ملکوں میں ذہنی بیماریوں میں مبتلا تقریباً پچہتر فیصد لوگوں کو یا تو علاج کی سہولت ہی دستیاب نہیں ہے یا کم سے کم اس معیار کی نہیں جس کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔
لیکن علاج مسئلے کے حل کا دوسرا مرحلہ ہے۔ پہلا اور نسبتاً زیادہ مشکل قدم تو صرف یہ اعتراف کرنا ہے کہ آپ یا آپ کا کوئی عزیز کسی ذہنی بیماری میں گھر گیا ہے اور اسے علاج کی ضرورت ہے۔ یہ کام آسان نہیں ہے لیکن ہمت سے کام لینے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ سوپر سٹار دیپیکا پاڈوکون کھل کر اپنی ذہنی صحت کے بارے میں بات کرتی ہیں اور اس بارے میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے ایک ادارہ بھی چلاتی ہیں۔
معاشرے نے ذہنی بیماریوں کے ساتھ بدنامی کا ٹیگ جوڑ رکھا ہے جیسے آپ کسی شرابی یا ڈرگ ایڈکٹ کی بات کر رہے ہوں، جیسے لوگوں کے پاس یہ چوائس ہو کہ وہ ذہنی بیماری میں مبتلا ہوں یا نہ ہوں، اور جیسے ڈپریشن جیسی بیماریاں صرف سمجھانے سے ختم ہو سکتی ہوں: یار خوش رہا کرو اور صبح سویرے اٹھ کر ٹہل آیا کرو، اور پھر دیکھنا موڈ کتنا فریش رہے گا۔ یہ یا اس سےملتا جلتا نسخہ آپ نے ہم جنس پرستوں کے لیے بھی سنا ہوگا، بھائی تم اپنا فرینڈ سرکل تو بدل کے دیکھو۔۔۔ جیسے یہ کوئی معطی ’بیماری‘ ہو اور ایک ہفتے کے اینٹی بائیوٹک کورس یا کوئی ٹیکہ لگوانے سے ٹھیک ہوجاتی ہو۔

بارہ سال پہلے تک میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جو دماغی بیماریوں میں مبتلا ہونے والوں کی ذہنی کیفیت کو نہیں سمجھ پاتے۔ پھر بیاسی برس کی عمر میں میرے والد کو سٹروک ہوا اور تین چار مہینوں تک انہیں معلوم نہیں تھا کہ وہ کس دنیا میں ہیں۔ کہنا کچھ چاہتے تھے زبان سے نکلتا کچھ تھا۔ ایک دن بس یوں ہی میرے ذہن میں خیال آیا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ جو کہنا چاہتے ہیں لکھ کر بتا سکیں۔ میں نے ان کی ڈائری، جس میں وہ پابندی سے حساب لکھا کرتے تھے، ان کے ہاتھ میں تھمائی تو انہوں نے اردو میں بس ایک جملہ لکھا: میں بہت تکلیف میں ہوں۔
تین چار مہینے میں وہ تقریباً پوری طرح ٹھیک ہوگئے لیکن ان کی زندگی زیادہ باقی نہیں تھی۔
لیکن ہم پر گزری تبھی سمجھ آیا کہ کچھ باتیں کسی کے کنٹرول میں نہیں ہوتیں۔ جیسے حادثات۔ ایک انگریزی فلم میں ایک بڑی دعوت کی تیاری ہو رہی تھی۔ ویٹروں کے ہیڈ نے اپنی ٹیم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ایکسی ڈنٹ نہیں ہونا چاہیے۔

ایک لڑکی نے جواب دیا کہ ایکسی ڈنٹ جان بوجھ کر نہیں کیے جاتے، بس ہو جاتے ہیں۔ بس اسی طرح ضروری نہیں کہ ذہنی بیماریوں کا کوئی فوری ٹریگر ہو۔ لیکن اس کی علامتیں صاف نظر آتی ہیں اور انہیں اس امید میں نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
اور جہاں تک سوال اس بات کا ہے کہ غریب مریضوں کا علاج نہیں ہو پاتا تو انڈیا جیسے ملکوں کو یہ پالیسی بنانی چاہیے کہ جب بھی کبھی کسی رہنما کی یاد میں کوئی میموریل بنانا ہو تو ان کے نام سے منسوب ایک شاندار ہسپتال بنایا جائے گا، دیو قامت مجسمہ نہیں۔
لوگ خود کشی اپنی خوشی سے نہیں کرتے۔ اگر ان کا ذہنی توازن صحیح ہوتا اور وہ صحیح اور غلط میں فرق کرسکتے تو زندگی اور موت کے بیچ میں کون بے وجہ موت کا انتخاب کرتا۔ کورونا وائرس کی وجہ سے بھی بہت سے لوگ ذہنی دباؤ میں ہیں، اگر کوئی اور پریشانی بھی نہ ہو تو تین مہینے گھر میں بند رہنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اور اس پر ہر وقت یہ فکر کہ کہیں وائرس کی زد میں نہ آ جائیں۔
