اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ شوگر کمیشن کی فرانزک رپورٹ کوئی فیصلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ ہے جو وفاقی اداروں جیسا کہ ایف بی آر، سٹیٹ بینک یا ایس ای سی پی کی تفتیش پر اثر انداز نہیں ہونی چاہیے۔
جمعے کو شوگر ملز ایسوسی ایشن کی چینی انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جو ادارے اب تفتیش کریں گے وہ اس رپورٹ سے متاثر ہوئے بغیر آزادانہ تحقیقات کریں گے۔ تمام اداروں نے شفاف ٹرائل کے لیے متعلقہ لوگوں کو سننا ہے کیونکہ یہ سب پاکستان کے شہری ہیں۔
مزید پڑھیں
-
چینی: رپورٹ میں سیاسی خاندانوں کے نامNode ID: 469496
-
چینی کے بحران میں حکومت کا کیا کردار رہا؟Node ID: 480436
-
چینی سبسڈی: معاملہ نیب کو بھیجا جائے گاNode ID: 483561
اسلام آباد ہائی کورٹ نے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے خلاف کارروائی سے روکنے کے حکم میں ایک روز کی توسیع کرتے ہوئے چینی انکوائری کمیشن کیس کی سماعت سنیچر تک ملتوی کر دی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کل پھر کیس کی سماعت کریں گے۔
جمعے کو شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکلا نے تین گھنٹے تک دلائل دیے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’گنے کے کاشتکاروں کے حقوق کے لیے صوبائی قوانین ہیں جن پر عمل نہیں ہوتا۔ صوبے قانون پر عمل کروائیں تو کاشتکاروں کے حقوق کبھی سلب نہیں ہوسکتے۔‘
شوگر ملز مالکان کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چینی کمیشن رپورٹ میں الزامات لگا کر سارا بوجھ مستقبل میں تحقیقات کرنے والوں پر ڈال دیا گیا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ٹیکس کمشنر کیا کابینہ کے فیصلے اور معاون خصوصی شہزاد اکبر کے خطوط کے بعد آزادانہ انکوائری کر سکے گا۔

شوگر مل مالکان کے وکیل کا کہنا تھا کہ معاملہ عدالت میں ہے جبکہ وزیراعظم اور ان کے معاونین ہمیں پہلے سے ہی مافیا کہہ رہے ہیں۔
انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے حالیہ بیان کا حوالہ دیا اور کہا کہ ’وزیراعظم نے کہا ہے کہ کون سی عدالت ہے جو انکوائری رپورٹ پر سٹے آرڈر دیتی ہے۔‘
مخدوم علی خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر سمیت دیگر معاونین روزانہ کی بنیاد پر پریس کانفرنس کر کے ہمیں مافیا کہتے ہیں۔
وکیل نے کہا کہ پہلے مافیا کہا جاتا ہے پھر معاملہ نیب اور ایف آئی اے کو بھیجا جاتا ہے۔ یہ میڈیا ٹرائل دکھاتا ہے کہ ساری مشق متعصبانہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت مرضی کا کمیشن بنا کر من پسند افسران کا تقرری کرتی ہے اور مرضی کی رپورٹ لے کر کمیشن کے افسران کو گریڈ 22 میں ترقی دی گئی۔
