بیرون ملک تعلیم کے لیے جانے والے طلبہ میں ’ذہنی دباؤ‘ کیوں بڑھ رہا ہے؟
بیرون ملک تعلیم کے لیے جانے والے طلبہ میں ’ذہنی دباؤ‘ کیوں بڑھ رہا ہے؟
پیر 3 مارچ 2025 11:27
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
ماہرین کے مطابق سکولوں کالجوں بلکہ گھروں میں اس پر بات نہیں کی جاتی ہے کہ ذہنی دباؤ ہوتا کیا ہے؟ (فوٹو: بشکریہ صحت کہانی)
پاکستان میں ان دنوں ایسے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس میں بیرون ملک تعلیم کے لیے جانے والے طلبہ مختلف ذہنی امراض کا شکار ہو رہے ہیں۔
اردو نیوز نے ایسے طلبہ سے بات کی ہے، جو تعلیم ادھوری چھوڑ کر وطن واپس آئے اور ان کے خاندان اب ان کا علاج کروا رہے ہیں۔
تاہم رازداری کے قوانین کے سبب ان کے اصل نام ظاہر نہیں کیے جا رہے۔ اس رپورٹ کو تیار کرنے کے لیے ایسے ماہر ڈاکٹروں سے بھی بات کی گئی جو خود ایسے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔
محمد سلیم آج کل لاہور میں ایک ریستوران چلا رہے ہیں جو ان کی فیملی نے بنا کر دیا ہے۔ ان کی عمر 32 سال ہے۔ اپنی کہانی بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جرمنی گیا تھا۔ لیکن اس ماحول میں ایڈجسٹ نہیں ہو سکا۔ مستقل ذہنی دباؤ میں رہنے کے بعد میں نے منشیات کا سہارا لینا شروع کر دیا۔ جس کی وجہ سے چیزیں اور بگڑ گئیں۔ تعلیم پر پہلے ہی توجہ زیادہ نہیں دے پا رہا تھا۔ ساتھ یہ بھی سوچ کر گیا تھا کہ وہاں سے گھر والوں سے پیسے نہیں منگواؤں گا۔ لیکن ہو نہیں سکا۔‘
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’پھر میرے گھر والوں نے لگ بھگ 40 لاکھ روپے خرچ کیے تھے۔ اس بات کا بھی بڑا دباؤ تھا۔ اور یہ بوجھ اتنا بڑھ گیا کہ میں کچھ بھی نہیں کر پا رہا تھا۔ پہلے تو گھر والے سوال کرتے تھے لیکن اس کے بعد اچانک انہوں نے مجھے واپس بلانے کی ضد شروع کر دی۔ مجھے ٹکٹ بھیجا اور میں آ گیا۔ اس کے بعد مجھے ایک ری ہیب سینٹر میں داخل کروا گیا۔ جہاں تین مہینے گزارنے کے بعد مجھے ڈسچارج کیا گیا۔ پہلے تو مجھے اندازہ نہیں تھا لیکن ڈاکٹروں نے بتایا کہ مجھے سائیکوسز ہو گیا تھا۔‘
پاکستان واپس آئے سلیم کو تین سال ہو چکے ہیں اور وہ اب بھی مستقل دوا کھا رہے ہیں تاہم اب وہ کام کاج کے بھی قابل ہو گئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اب بھی میں اپنے آپ کو مکمل ٹھیک نہیں سمجھتا۔ دواؤں کے اپنے بھی سائیڈ ایفیکٹس ہیں۔ لیکن یہ بات مجھے ضرور سمجھ آ گئی ہے کہ مجھے کچھ ہوا ضرور تھا۔ جس سے میں اب باہر آ گیا ہوں۔ اس وقت میں جو کچھ محسوس کر رہا تھا، وہ شاید لفظوں میں میں بیان نہیں کر سکتا۔‘
کچھ ایسی ہی کہانی علی جان کی بھی ہے ان کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور وہ برطانیہ پڑھنے گئے تھے۔
علی بتاتے ہیں کہ ’داخلہ تو میں نے بڑے شوق سے لیا تھا لیکن جیسے ہی میں وہاں پہنچا تو ایک انجان سا احساس تھا کہ میں یہاں ایڈجسٹ نہیں ہو سکوں گا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ یہ میری جگہ ہے ہی نہیں۔ میں تو یہاں سے فیصلہ کر کے گیا تھا کہ میں وہاں سیٹ ہونے کے لیے جا رہا ہوں۔ لیکن تیسرے ہی سمسٹر میں میرا ذہنی دباؤ اس حد تک بڑھ گیا تھا کہ مجھے اپنا سمسٹر فریز کروانا پڑا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’مجھے منشیات کی بھی لت پڑ گئی تھی۔ اور پھر ایک دن میں نے گھر والوں کو سچ بتا دیا تو میری والدہ نے مجھے فوری واپس آنے کا کہا۔ بھائی نے ٹکٹ کے پیسے بھیجے اور واپس آ گیا۔ لیکن یہاں آ کر بھی میری اندر کی حالت نہیں سنبھلی تو پھر بھائی مجھے ایک سائیکائٹرسٹ کے پاس لے گئے۔‘
ڈاکٹر باجوہ کے مطابق ہمارے پاس پہلے نمبر پر انگلینڈ سے واپس آنے والے طلبہ کی تعداد ہے۔ (فوٹو: بشکریہ صحت کہانی)
علی جان نے مزید بتایا کہ ’اس کے بعد سے میرا علاج چل رہا ہے۔ اور میں پہلے سے بہتر محسوس کر رہا ہوں لیکن اب بھی اس بات کا دکھ ہے کہ اپنے گھر والوں کی امیدوں پر پورا نہیں اتر سکا۔ گھر والے تو تسلی دیتے ہیں لیکن اندر ہی اندر اس بات کا غم ہے میرے اندر۔‘
کیسز کی تعداد میں ’اضافہ‘
ذہنی صحت پر کئی برسوں سے لاہور میں کام کرنے والے ڈاکٹر شاہ زیب جو اپنا ری ہیب سنٹر بھی چلا رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ ’میرے پاس پچھلے پانچ برس سے سالانہ 20 سے 25 کیس آ رہے ہیں جس میں ایک ہی چیز مشترک ہے کہ باہر پڑھنے گئے تھے تو وہاں ایڈجسٹ نہیں ہو سکے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’جتنا میں ان کیسز کو قریب سے ڈیل کر رہا ہوں تو مجھے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ کچھ نہ کچھ پہلے چل رہا ہوتا ہے۔ نئے ماحول میں جانے سے وہ واضح ہو جاتا ہے اور اس سب سے زیادہ تباہی منشیات کے استعمال کی وجہ سے ہوتی ہے۔‘
سیالکوٹ میڈیکل کالج میں شعبہ سائیکائٹری کے سربراہ ڈاکٹر ندیم باجوہ کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس دو طرح کے لوگ آتے ہیں ایک وہ جو داخل ہونے کے لیے آتے ہیں۔ ایسے کیسز سال میں 40 سے 45 ہیں جبکہ جو داخل ہونے کے لیے نہیں، صرف دوا کے لیے آؤٹ ڈور میں آتے ہیں، وہ سو سے ڈیڑھ سو کے درمیان ہیں۔ سیالکوٹ ریجن سے بہت بڑی تعداد باہر پڑھنے جاتی ہے۔‘
ڈکٹر باجوہ کے مطابق ’ہمارے پاس پہلے نمبر پر انگلینڈ سے واپس آنے والے طلبہ کی تعداد ہے جبکہ دوسرے نمبر پر آسٹریلیا اور تیسرے نمبر پر جرمنی۔ اور اس میں پھر دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو نشے کی وجہ سے نان فنکشنل ہوئے اور دوسرے وہ جو نشے پر تو نہیں لگے لیکن ذہنی دباؤ نے انہیں مفلوج کر دیا۔ میں اسلام آباد میں بھی پریکٹس کر رہا ہوں وہاں بھی تناسب یہی ہے۔‘
ڈاکٹر ندیم باجوہ کا کہنا تھا کہ ’جیسے جیسے تعلیم اور امیگریشن کے قوانین میں سختی آ رہی ہے، اس کا اثر بھی بڑھ رہا ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے دو طالب علموں کو آسٹریلیا کے ایئرپورٹ سے ہی ڈی پورٹ کر دیا گیا کیونکہ دونوں بچے پاکستان میں یونیورسٹی سے لی ہوئی چھٹیوں سے زیادہ وقت گزار کر گئے تھے۔ تو نئے قوانین کے مطابق یونیورسٹی نے امیگریشن حکام کو اطلاع دے دی تھی۔ میں ان دونوں بچوں کا علاج کر رہا ہوں وہ پہلے ہی ذہنی دباؤ کا شکار تھے اور اب ڈیپورٹیشن نے اس میں اضافہ کر دیا ہے۔‘
جرمنی میں محمد سلیم دوران تعلیم ذہنی دباؤ کا شکار ہوئے تھے۔ (فوٹو: لیٹس)
’ناموافق ماحول بڑی وجہ‘
ماہر نفسیات افشین یحییٰ کہتی ہیں کہ بچوں کی شخصیت پر کام کرنے کی بجائے ان سے توقعات پر پوری کہانی کھڑی کرنا وہ بنیاد ہے جس کے ساتھ بچے باہر پڑھنے جاتے ہیں۔
افشین یحیٰ نے مزید کہا کہ ’ان کو سب سے پہلے جس چیز کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ایک انتہائی مختلف ماحول ہوتا ہے۔ رہن سہن بود و باش حتیٰ کہ کھانا پینا سب کچھ مختلف ہوتا ہے، جس کے بارے میں انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی اپنی ذہن سازی نہیں کی ہوتی۔ یعنی جس چیز کو سب سے کم وقعت دی جاتی ہے وہ ہی سب سے بڑا پہاڑ ثابت ہوتا ہے۔‘
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’کیا ہمارے سکولوں کالجوں بلکہ گھروں تک میں اس پر بات کی جاتی ہے کہ ذہنی دباؤ ہوتا کیا ہے اور اسے ٹھیک کرنے کے طریقے کیا ہیں؟ شخصیت پر کام نہ ہونا نئے ماحول میں ڈھلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔ جو نوجوان ماحول میں اپنے آپ کو ڈھال لیتے ہیں وہ کم از کم مزید پیچیدگیوں سے بچ جاتے ہیں۔‘
’میرا خیال ہے اب وقت آگیا ہے کہ اس موضوع پر بات ہو اور حکومت تمام ایجوکیشن کنسلنٹسی بزنس کرنے والوں کو پابند کرے کہ وہ جب بھاری معاوضہ لے کر داخلے کرواتے ہیں، تو نئے ملک کے ماحول کے متعلق بھی تربیت کا بھی اہتمام کریں۔ میرا خیال ہے اس سے بہتری آ جائے گی۔‘