کرکٹ کو عظیم بنانے کی چار چیزیں؟
رمیز راجہ 13 برس تک پاکستانی ٹیم کا حصہ رہے ہیں (فوٹو سوشل میڈیا)
سابق پاکستانی کرکٹر رمیز راجہ نے ملکی کرکٹ کی بہتری کے لیے چار شعبوں کی شناخت کی اور دوسروں سے تجاویز دینے کو کہا تو اس موضوع پر ہونے والی گفتگو ایک اصلاحاتی منصوبے کی شکل اختیار کر گئی۔
شائقین کرکٹ ہی نہیں بلکہ کھیل سے وابستہ افراد بھی گفتگو کا حصہ بنے تو کسی نے محض اپنے خیالات کے اظہار پر اکتفا کیا تو کوئی رمیز راجہ سے ماضی اور حال کے کرکٹ نظاموں کے تقابل کا تقاضہ کرتا رہا۔
رمیز راجہ نے مائکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر دیے گئے پیغام میں لکھا تھا کہ چار چیزیں پاکستان کرکٹ کو دوبارہ سے عظیم بنا سکتی ہیں۔ پچز، ڈومیسٹک کرکٹ، انتظامیہ اور ٹیلنٹ کی نگرانی و تلاش‘۔ اپنے پیغام کے اختتامی حصے میں انہوں نے صارفین سے کہا وہ بتائیں کہ وہ اس معاملے پر کیا سوچتے ہیں۔
پاکستانی کرکٹر کامران اکمل کی جانب سے ان کی ٹویٹ کے جواب میں پوچھا گیا کہ ’رمیز بھائی ڈومیسٹک کرکٹ کا کون سا سٹرکچر بہتر ہے؟ وہ جو آپ نے ریجنز کرکٹ کا بنایا یا موجودہ نظام‘۔
جس کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ ’پی ایس ایل کے کامیاب ماڈل کو فرسٹ کلاس سطح پر فالو کیا جا سکتا ہے۔ شہروں کے مقامی اور غیرمقامی مقابلے ہوں، اچھی پچز ہوں، غیر ملکی کھلاڑی ہوں، دو سے اڑھائی ماہ کے عرصے پر مشتمل ہوں، ٹی وی شامل ہو تو فینز اسے آگے بڑھا سکتے ہیں‘۔
جواب میں کامران اکمل نے لکھا کہ ’میں جاننا چاہتا ہوں کہ چھ ٹیمیں پاکستان کرکٹ (کی بہتری) کے لیے کافی ہیں یا سابقہ نظام بہتر تھا۔ کیا ہم پی ایس ایل کو سابقہ سسٹم کے ساتھ ملا کر استعمال نہیں کر سکتے؟‘
پاکستانی کرکٹر فیصل اقبال گفتگو کا حصہ بنے تو انہوں نے بہتری کی تجویز میں لکھا ’جدید کرکٹ کھیلنے والے نوجوان کوچز جنہوں نے پاکستان کے لیے مختلف سطحوں پر شفافیت بھرے انداز اور محنت سے کرکٹ کھیلی ہو‘۔
کرکٹ کی بہتری کے لیے تجاویز دینے والوں نے موجودہ کرکٹرز کی ذہنی کیفیت کی بہتری کو بھی اپنی گفتگو کا حصہ بنایا۔ حنا خان نامی صارف نے لکھا ’جلد از جلد ایک اچھا نفسیاتی ماہر چاہیے جو کھلاڑیوں کی ذہنی گرہوں کو دور کر سکے۔ ہمارے بلے بازوں کو ذہنی تربیت چاہیے تاکہ وہ حالات کے مطابق کھیل پیش کر سکیں‘۔
رمیز راجہ کی تجویز کردہ اصلاحات سے اتفاق کرنے والے کچھ صارف ایسے بھی تھے جو ان اقدامات سے قبل دیگر کاموں کی جانب متوجہ کرتے رہے۔ جبران طاہر صدیقی نے لکھا میرٹ پر عمل کیا جائے سبھی درست ہو جائے گا۔
گلگت بلتستان کے سیکرٹری داخلہ محمد علی رندھاوا کرکٹ کی بہتری کے لیے ڈیجیٹل دائرے میں بہتری کی تجویز کے ساتھ سامنے آئے۔ انہوں نے ایسا نظام بنانے کا کہا جس سے کوئی بھی اپنی کارکردگی بذریعہ ویڈیو متعلقہ مقام تک پہنچا سکے۔
ماضی میں تعلیمی اداروں میں ہونے والی کھیلوں کی سرگرمیوں کا تذکرہ بھی گفتگو کا حصہ بنا۔ جہانگیر مصطفی نامی یوزر نے موقف اپنایا کہ جب سے سکولز و کالجز میں کھیلوں کا فروغ ختم ہوا تب سے کھیل کے ہر میدان میں پیچھے ہیں۔اپنے موقف کے ثبوت میں انہوں نے پاکستان کے قومی کھیل ہاکی کی مثال بھی دی۔
دیگر صارفین بھی تعلیمی اداروں کی سطح پر کھیل پر توجہ مرکوز کرنے کے خواہاں دکھائی دیے تو انہوں نے 70 اور 80 کی دہائی کے کرکٹ سٹرکچر کا ذکر بھی کیا۔
ماضی میں ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا عالمی چیمپئن رہنے والی پاکستانی ٹیم میں مستقل مزاجی کا فقداں رہا ہے۔ رمیز راجہ کی ٹویٹ کے بعد ہونے والی گفتگو میں شریک صارفین کی نمایاں تعداد کرکٹ کے شعبے میں مستقل مزاجی اپنانے کی تلقین کرتی رہی۔
57 سالہ رمیز راجہ نے 1984 میں انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ سے اپنا انٹرنیشنل کرکٹ کیریئر شروع کیا اور وہ 1997 تک قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ رہے۔ 255 بین الاقوامی میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے رمیز راجہ 1992 کے ورلڈ کپ فاتح سکواڈ کا بھی حصے تھے۔
کرکٹ کمنٹری کے شعبے سے وابستہ رمیز راجہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں بھی اہم ذمہ داریوں پر فائز رہے ہیں۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں