Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

25 ہزار افراد کے لیے کشمیر کی شہریت ’تابوت میں آخری کیل‘

انڈین حکومت کو کشمیر کی شہریت کے لیے 33 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں (فوٹو:اے ایف پی)
انڈین حکومت کی جانب سے گذشتہ برس جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اسے مرکز کے زیرانتظام علاقہ قرار دیے جانے کے بعد اب ملک کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے 25 ہزار غیر کشمیری افراد کو جموں و کشمیر کی شہریت دے دی گئی ہے۔
اپریل 2019 میں انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے غیر کشمیری انڈین شہریوں کو کشمیر کے ڈومیسائل حقوق دینے کے لیے نئے قوانین متعارف کرائے تھے۔ 
اس وقت تجزیہ کاروں نے متنبہ کیا تھا کہ ان قوانین کا مقصد ملک کے واحد مسلم اکثریتی خطے کے آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق انڈین حکومت کو جموں کے ہندو اکثریتی علاقے سے شہریت کے لیے اب تک لگ بھگ 33 ہزار درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ ان میں سے مئی سے لے کر اب تک تقریباً 25 ہزار درخواستیں منظور کی گئی ہیں۔
اس حوالے سے مقامی حکومت کے ترجمان نے بات کرنے سے انکار کیا ہے۔
گذشتہ 15 برس سے ریاست میں رہائش پذیر افراد یا ایسے طلبہ جو سات سال سے یہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں، کشمیر کے مستقل رہائشی بننے کے اہل ہیں۔ 
اس کے علاوہ رجسٹرڈ تارکین وطن اور مرکزی حکومت کے عہدیداروں کے بچوں جنہوں نے 10 سال تک جموں و کشمیر میں خدمات انجام دی ہیں، انہیں بھی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کی اجازت ہے۔
انڈیا کی مشرقی ریاست بہار سے تعلق رکھنے والے صف اول کے بیوروکریٹ ناوین کمار چوہدری نے 26 سال تک کشمیر میں نوکری کی۔ رواں ہفتے وہ پہلے فرد تھے جنہیں انڈین حکومت کی جانب سے نئے قانون کے تحت کشمیر کی شہریت دی گئی۔

غیر کشمیری انڈین شہریوں کو کشمیر کی شہریت دینے کے لیے نئے قوانین متعارف کرائے گئے تھے (فوٹو:اے ایف پی)

سیاسی جماعت نیشنل کانگریس کے رہنما اور جموں و کشمیر کے سابق وزیراعلی عمر عبداللہ  نے جمعے کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ 'کشمیر میں نئے ڈومیسائل قوانین کے حوالے سے ہمارے تمام اندیشے سچ ثابت ہو رہے ہیں۔'
انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ 'نیشنل کانگریس نے ان تبدیلیوں کی مخالفت کی کیونکہ ہم ان تبدیلیوں کے پیچھے ایک مذموم ڈیزائن دیکھ سکتے تھے۔'
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے نیشنل کانگریس کے ترجمان عمران نبی نے کشمیر کی مستقل شہریت کے لیے درخواستوں کی منظوری کو 'تابوت میں آخری کیل' اور کشمریوں کے ساتھ ناانصافی قرار دیا اور کہا کہ ' یہ ہماری زمین اور ملازمتوں پر براہ راست حملہ ہے۔'

مستقل شہریت کے لیے زیادہ تر درخواستیں جموں کے ہندو اکثریتی علاقے سے موصول ہوئیں (فوٹو:اے ایف پی)

ریاست کی سابق حکمران جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے مطابق انڈین حکومت کشمیر کی شناخت کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔
جماعت نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومتی ایجنڈہ سامنے آنے کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ کشمیر میں آبادیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ نوکریاں، قدرتی وسائل، ثقافتی شناخت اور ہر وہ چیز ہدف پر ہے جسے کشمیری عوام نے انڈیا کو قبول کرتے ہوئے مستحکم آئینی ضمانتوں کے ساتھ بچانے کی کوشش کی تھی۔

شیئر: