Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈینئل پرل کیس: حکم امتناع کی استدعا پھر مسترد

عدالت عظمیٰ نے مرکزی اپیل کی سماعت ستمبر تک ملتوی کر دی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے ڈینیئل پرل قتل کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف صوبائی حکومت کی جانب سے حکم امتناع کی درخواست ایک بار پھر مسترد کر دی ہے۔
عدالت نے مرکزی اپیل پر سماعت ستمبر تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ کے جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے معاملے کی سماعت کی۔

 

سندھ حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکم امتناع کی استدعا کی تھی جس کو مسترد کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ فیصلے پر حکم امتناع کے لیے فیصلے میں قانونی نقائص کی نشاندہی لازمی ہے۔
 سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے مؤقف اپنایا کہ ملزمان بین الاقوامی دہشت گرد ہیں۔ انھیں ایم پی او کے تحت نظر بند رکھا گیا ہے۔
جسٹس یحییٰ خان آ فریدی نے استفسار کیا کہ ملزمان کی بریت کے بعد آپ ان کو کیسے دہشت گرد کہہ سکتے ہیں؟
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ان میں سے ایک انڈیا اور دوسرا افغانستان میں دہشت گرد تنظیم کے ساتھ کام کرتا رہا۔ ’ملزمان آ زاد ہوئے تو سنگین اثرات ہوں سکتے ہیں۔ ملزمان آزاد ہوئے تو جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرسکتے ہیں۔‘
ملزمان کے وکیل نے کہا کہ ہائی کورٹ کی جانب سے بری ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے سامنے ایسا بیان کیسے دیا جا سکتا ہے۔ ملزمان نے 18 سال سے سورج نہیں دیکھا۔ ’حکومتوں کو خدا کا کچھ خوف ہونا چاہیے۔‘
بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ بریت کے حکم کو ٹھوس وجہ کے بغیر کیسے معطل کیا جاسکتا ہے۔
’فیصلے میں کوئی سقم ہو تب ہی معطل ہو سکتا ہے۔ حکومت چاہے تو ایم پی او میں توسیع کر سکتی ہے۔‘ عدالت نے کیس کی مزہد سماعت ستمبر  تک ملتوی کر دی۔

سندھ ہائی کورٹ نے احمد عمر شیخ کی سزائے موت کو سات سال قید میں تبدیل کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

خیال رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے 2 اپریل2020 کو امریکی صحافی کے قتل میں نامزد تین ملزمان کی رہائی کا حکم دیا تھا اور ایک ملزم احمد عمر شیخ کی سزائے موت کو سات سال قید میں تبدیل کیا تھا۔
امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کے ساؤتھ ایشیاء بیورو چیف ڈینئیل پرل کو 2002 میں کراچی میں اغواء کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ اس وقت کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے کیس کے مرکزی ملزم برطانوی شہری عمر شیخ کو سزائے موت اور ان کے تین ساتھیوں فہد ندیم، سلمان ثاقب اور شیخ محمد علی کو عمر قید کے علاؤہ فی کس پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
ملزمان کی جانب سے فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی مگر معاملہ طوالت کا شکار رہا اور 10 سال اس کیس کی سماعت نہ ہوسکی۔

شیئر:

متعلقہ خبریں