پاکستان کی سپریم کورٹ نے ڈینیئل پرل قتل کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف صوبائی حکومت کی جانب سے حکم امتناع کی درخواست ایک بار پھر مسترد کر دی ہے۔
عدالت نے مرکزی اپیل پر سماعت ستمبر تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ کے جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے معاملے کی سماعت کی۔
مزید پڑھیں
-
صحافی کا قتل، ’آزادانہ تحقیقات کرائی جائیں‘Node ID: 459831
-
ڈینیئل پرل کیس: عمر شیخ کی سزائے موت ختم، 3 ملزمان بریNode ID: 468906
-
ڈینیئل پرل کے قتل پر 'انصاف' کا مطالبہNode ID: 469306
سندھ حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکم امتناع کی استدعا کی تھی جس کو مسترد کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ فیصلے پر حکم امتناع کے لیے فیصلے میں قانونی نقائص کی نشاندہی لازمی ہے۔
سندھ حکومت کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے مؤقف اپنایا کہ ملزمان بین الاقوامی دہشت گرد ہیں۔ انھیں ایم پی او کے تحت نظر بند رکھا گیا ہے۔
جسٹس یحییٰ خان آ فریدی نے استفسار کیا کہ ملزمان کی بریت کے بعد آپ ان کو کیسے دہشت گرد کہہ سکتے ہیں؟
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ان میں سے ایک انڈیا اور دوسرا افغانستان میں دہشت گرد تنظیم کے ساتھ کام کرتا رہا۔ ’ملزمان آ زاد ہوئے تو سنگین اثرات ہوں سکتے ہیں۔ ملزمان آزاد ہوئے تو جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرسکتے ہیں۔‘
ملزمان کے وکیل نے کہا کہ ہائی کورٹ کی جانب سے بری ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے سامنے ایسا بیان کیسے دیا جا سکتا ہے۔ ملزمان نے 18 سال سے سورج نہیں دیکھا۔ ’حکومتوں کو خدا کا کچھ خوف ہونا چاہیے۔‘
بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے ریمارکس دیے کہ بریت کے حکم کو ٹھوس وجہ کے بغیر کیسے معطل کیا جاسکتا ہے۔
’فیصلے میں کوئی سقم ہو تب ہی معطل ہو سکتا ہے۔ حکومت چاہے تو ایم پی او میں توسیع کر سکتی ہے۔‘ عدالت نے کیس کی مزہد سماعت ستمبر تک ملتوی کر دی۔
