امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ 'ڈینیئل پرل ایک مایہ ناز صحافی تھے، امریکہ ان کی خدمات کا معترف ہے اور ان کے سفاکانہ قتل پر انصاف کا مطالبہ کرتا ہے۔'
جمعے کے روز اپنی ٹویٹ میں مائیک پومپیو نے مزید کہا کہ 'امریکہ ڈینیئل پرل کو نہیں بھولے گا۔'
اس سے پہلے جمعرات کو امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'ڈینیئل پرل کیس کے مجرموں کی سزائیں واپس لینا دہشت گردی کے متاثرین کی تضحیک کے مترادف ہے۔' سندھ حکومت نے ڈینیئل پرل کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جبکہ وفاقی وزارت داخلہ نے کیس کے تمام ملزمان کو نقص عامہ کے قانون کے تحت تین ماہ کے لیے حراست میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
ایران میں گرفتار خاتون صحافی کہاں ہے؟Node ID: 418246
-
صحافی کا قتل، ’آزادانہ تحقیقات کرائی جائیں‘Node ID: 459831
-
مجوزہ بل صحافیوں کو تحفظ دے سکے گا؟Node ID: 461346
جمعرات کو سندھ ہائی کورٹ نے 18 سال بعد امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کے لیے کام کرنے والے صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کیس کے چار ملزمان کی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے تین ملزمان کو بری اور مرکزی ملزم عمر سعید شیخ کی سزائے موت کو ختم کر کے سات سال قید میں بدلنے کا حکم صادر کیا تھا۔
وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ 'فوجداری مقدمات کے تناظر میں اگرچہ یہ ایک صوبائی معاملہ ہے تاہم وفاقی حکومت نے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ معاملہ سندھ حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے۔'
وزارتِ داخلہ کے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ 'ڈینیئل پرل کیس میں عدالت عالیہ سندھ کے حالیہ فیصلے کے خلاف اپیل آئندہ ہفتے سپریم کورٹ میں دائر کی جائے گی، اس معاملے میں سندھ حکومت کو بہترین وسائل بروئے کار لانے کا کہا گیا ہے۔'
The United States will not forget #DanielPearl. We continue to honor his legacy as a courageous journalist and demand justice for his brutal murder. https://t.co/wrN3MdeETP
— Secretary Pompeo (@SecPompeo) April 3, 2020
امریکی جریدے وال سٹریٹ جرنل کے جنوبی ایشیا کے لیے بیورو چیف ڈینیئل پرل کو 2002 میں کراچی میں اغوا کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ اس وقت کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے کیس کے مرکزی ملزم برطانوی شہری عمر سعید شیخ کو سزائے موت اور ان کے تین ساتھیوں فہد ندیم، سلمان ثاقب اور شیخ محمد علی کو عمر قید کی سزا کے علاوہ فی کس پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
ملزمان کی جانب سے فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی مگر معاملہ طوالت کا شکار رہا اور 10 سال اس کیس کی سماعت نہ ہوسکی۔

ملزمان کے وکیل رائے بشیر اور خواجہ نوید احمد نے دورانِ سماعت عدالت کے سامنے موقف اپنایا کہ اس کیس کے تمام گواہ پولیس اہلکار ہیں اور استغاثہ ملزمان کے خلاف جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ وکیل صفائی کا مزید کہنا تھا کہ 'اس واقعے کا کوئی چشم دید گواہ بھی موجود نہیں۔'
عدالت نے ملزمان کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے عمر سعید شیخ کے خلاف سزائے موت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سات سال قید کا حکم دیا جبکہ دیگر تین ملزمان جن کے خلاف عمر قید کی سزا کا حکم تھا، انہیں باعزت بری کرنے کا حکم جاری کیا۔
