اردو میں ایسے بہت سے الفاظ موجود ہیں جو دوسروں کو سہارا دیتے دیتے خود گرپڑے (فوٹو: پکسابے)
یوں تو گرمی کا موسم ہے مگر اسلام آباد کا سیاسی درجہ حرارت ’مائنس ون‘ ہونے کو ہے۔ ایسے میں لال بُجَھکّڑوں کا کہنا ہے کہ بات مائنس تھری تک جائے گی۔ جب کہ خان کہتا ہے ’گھبرانا نہیں‘ کہ:
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
چوں کہ ہم غیر سیاسی آدمی ہیں اس لیے مائنس پلس کے چکر میں نہیں پڑتے، البتہ ہمیں ’لال بُجَھکّڑ‘ سے دلچسپی ہے کہ یہ کس ’بلا‘ کا نام ہے۔ اس کے لیے استاد سے رجوع کیا تو جواب ملا:
’لال بُجَھکّڑ‘ ایک فرضی عقلمند کا نام ہے جو احمقوں کے درمیان خلافِ عقل بات کرتا اور خود کو دانا جانتا تھا۔ طنزاً دانائی کے گھمنڈ میں مبتلا بے وقوف کو ’لال بُجَھکَّڑ‘ کہتے ہیں۔
اور’بے وقوف‘ کے کیا معنی ہیں ۔۔۔ ہم نے اگلا سوال جڑ دیا۔
بولے: ’بے وقوف‘ فارسی کے ’بے‘ اور عربی کے ’وقوف‘ سے مل کر بنا ہے۔ فارسی کی رعایت سے اردو میں ’بے‘ کا سابقہ الفاظ کی ضد کے لیے آتا ہے مثلاً آرام سے بے آرام، پروا سے بے پروا یا اختیار سے بے اختیار وغیرہ۔ ایسے ہی’وقوف‘ سے ’بے وقوف‘ ہے۔
کہنے کو تو احمق، بدھو اور گھامڑ کو ’بے وقوف‘ کہتے ہیں مگر اس کے لفظی معنی ’نہ رُکنا‘ یا دوسرے لفظوں میں ’نان سٹاپ‘ کے ہیں۔ ایسا شخص جو کسی بھی موقع پر اپنی کم عقلی کے اظہار سے باز نہ آئے ’بے وقوف‘ کہلاتا ہے، گویا اُس نے عزم کیا ہوتا کہ:
’روکے نہیں رُکے گا یہ طوفان بلا خیز‘
ممکن ہے تمہارے ذہن میں ہو کہ ’بے وقوف‘ اگر ’احمق یا کم عقل‘ ہے تو ’وقوف‘ کے معنی ’عقلمند‘ کے ہوں گے۔ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ وقوف کی اصل ’وقف‘ ہے۔ یوں تو ’وقف‘ کے بہت سے مطالب ہیں تاہم اس کے غالب معنی ٹھہرنے، رُکنے، مختص کرنے اور قرار پانے کے ہیں۔ مثلاً عربی میں فائربندی کو ’وقف اطلاق النار‘، جنگ بندی کو ’وقف الحرب‘ حکم امتناع کو ’وقفُ تنفیذ‘ اور کارسٹینڈ یا کارپارکنگ کو ’وقف السیارات‘ کہتے ہیں۔
وقف سے بننے والے بیشتر الفاظ بھی یہی مفہوم لیے ہوئے ہیں۔ اسے وقفہ، وقوف، موقوف، مؤقف اوراوقاف وغیرہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ٹی وی پروگرام کے دوران جو ’بریک‘ آتی ہے اسے کبھی ’وقفہ‘ کہتے تھے۔ بھلے وقتوں میں پی ٹی وی پر’وقفہ‘ اور’وقفہ ختم‘ سکرین پر لکھا آتا تھا۔ نیز اہل زبان کے ہاں تحریری علامات ’کامہ‘ اور ’فُل سٹاپ‘ بالترتیب ’وقف خفیف‘ اور’وقف تام‘ ہیں۔
حج کے مناسک میں سے ایک ’وقوف عرفہ‘ یعنی میدان عرفات میں ’ٹھہرنا‘ بھی ہے۔ لفظ ’موقوف‘ کے معنی کسی کام سے معطل کرنا یا روک دینا ہیں۔ ’موقف‘ کسی بات پر سٹینڈ لینے یا ڈٹ جانے کا مفہوم رکھتا ہے۔
اب ’اوقاف‘ کو دیکھو جو وقف کی جمع ہے۔ اس کا اطلاق اُس جائیداد پر ہوتا ہے جو شرعی یا حکومتی قانون کے تحت مفاد عامہ یا اولاد کے لیے ’مختص‘ کردی گئی ہو۔ دیکھو میرتقی میر کیا کہہ گئے ہیں:
بہرفردوس ہو آدم کو الم کاہے کو
وقف اولاد ہے وہ باغ تو غم کاہے کو
استاد ’وقف‘ پر مختصر مگر جامع تبصرہ کر چکے تو ہم نے اگلا سوال داغا:’ استاد آپ نے بے وقوف کے ضمن میں احمق کا ذکر کیا تھا، کچھ اس کا بیان بھی ہوجائے‘۔
استاد سوال سُن کر کِھل اٹھے، بولے’احمق‘ کی تفصیل چھوڑو اورمشہور مزاحیہ شاعر ’احمق پھپھوندوی‘ کا شعر سنو۔ اس شعر کی آڑ میں ’احمق‘ نے اپنے مخالفین پر خوب چوٹ کی ہے:
ادب نوازیٔ اہل ادب کا کیا کہنا
مشاعروں میں اب ’احمق‘ بلائے جاتے ہیں
ہم نے شعر کی داد دی اور عرض کی کہ ’احمق‘ نہ سہی ’بدھو‘ ہی پر کچھ روشنی ڈال دیں۔
بولے: ہندی میں ’بدھ‘ یا ’بدھی‘ عقل و دانائی کو اور ’بدھو‘ عقلمند کو کہتے ہیں۔اب تم کہو گے کہ جب بدھو کے معنی عقلمند کے ہیں تو پھر بدھو سے بے وقوف کیوں مراد لیتے ہیں؟
جی میں یہی پوچھنے والا تھا ۔۔۔ ہم نے کہا۔
بولے: اول اول کم عقل کو بدھو (عقلند) طنزاً کہا جاتا تھا بعد میں اس بدھو نے بے وقوف کے مستقل معنی اختیار کرلیے۔ دوسری بات جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ نادان کو اس کی بے عقلی کا طعنہ دینے کے بجائے ’بدھو‘ پکارتے ہوں گے مگر یہ لفظ اس نادانی کا پردہ بننے کے بجائے خود اپنے مقام سے گر کر احمق اور بے وقوف کے معنی تک پہنچ گیا۔
اردو میں ایسے بہت سے الفاظ موجود ہیں جو دوسروں کو سہارا دیتے دیتے خود گرپڑے۔
مثلاً ؟
مثلاً ! ۔۔۔ لفظ ’مہتر‘ دیکھو، اس کے معنی میں بزرگ، سردار، آقا اور مالک شامل ہیں۔ یہ ’کہتر‘ یعنی ادنیٰ اور چھوٹے کی ضد ہے۔ اس ’مہتر و کہتر‘ ہی سے ترکیب ’کہ و مہ‘ یعنی خاص و عام بنی ہے۔ اب ہوا یہ کہ خاکروبوں کو ’مہتر‘ پکارا گیا۔
اب لفظ ’مُصلی‘ پر غور کرو کہ اس کو ’صلوٰۃ‘ سے نسبت ہے۔ جس جگہ ’صلوٰۃ‘ ادا کی جائے وہ ’مُصلیٰ‘ اور جو ادا کرے وہ ’مُصلی‘ یعنی نمازی ہوتا ہے۔ ہندو مت کے طبقاتی نظام کے تحت ادنیٰ قرار دی جانے والی ذاتوں نے جب اسلام قبول کیا تو انہیں’مُصلی‘ جیسا خوب صورت خطاب دیا گیا۔ مگر یہ خوب صورت لفظ بھی ان کی توقیر نہ بڑھا سکا، نتیجتاً آج لفظ ’مُصلی‘ کم حیثیت بلکہ بے حیثیت کے معنی میں بطور گالی استعمال ہوتا ہے۔
ماضی قریب میں گھروں اور بازاروں میں پانی کی فراہمی کا کام ’ماشکی‘ کرتے تھے۔ انہیں سَقّا اور پنہارا کہا جاتا تھا۔ ان ماشکیوں کو ’بہشتی‘ یعنی جنتی کا نام دیا گیا، جو ’بَہشتی‘ سے ’بِھشتی‘ ہوا اور پھر کم ذات کا مترادف بن گیا۔
اب آخری بات اور وہ یہ کہ جب تک کسی کی عزت دل میں نہیں ہوگی لفظ یوں بے توقیر ہوتے رہیں گے۔ اس لیے لفظوں کی حرمت برقرار رکھنی ہے تو انسانوں کو عزت دینی ہوگی۔ علامہ اقبال نے بالکل درست کہا ہے کہ ’آدمیت احترام آدمی‘۔