گذشتہ ہفتے زیادہ تر پیپلز پارٹی خبروں میں رہی۔ بلاول بھٹو کی اے پی سی کوششوں سے لے کر مطیع اللہ جان کے گھر آمد تک، چیئرمین پی پی پی ہی خبروں کا عنوان تھے۔ اس کے ساتھ ہی کلبھوشن پر مودی کے یار کے نعرے بھی لگائے، عزیر بلوچ کے معاملے میں لاتعلقی اختیار کرنے کی کوشش بھی کی۔
جعلی اکاؤںٹس کیس تو ساتھ ساتھ شدومد سے چل ہی رہے ہیں۔ اُوپر سے بھلا ہو مون سون کی اس بارش کا، جو گورننس کے سب دوعوؤں کی قلعی کھول کھول رہی ہے اور پی ٹی آئی کو ’جب بارش آتی ہے تو پانی آتا ہے‘ کی گردان کا موقع مل جاتا ہے۔
پیپلز پارٹی کو دیکھنے والوں کی رائے جگہ کے حساب سے بدلتی ہے۔ اسلام آباد میں پڑھے لکھے تجزیہ کار بلاول کی انسانی حقوق، پارلیمانی روایات اور آئینی بالادستی سے متاثر ہو کر ایک امید دیکھتے ہیں۔ ساتھ ہی شیری رحمان، رضا ربانی، نفیسہ شاہ اور مصطفیٰ کھوکھر جیسے وسیع المطالعہ اور روشن خیال لیڈر بھی نظر آتے ہیں جو پارلیمانی سیاست میں ایک مباحثے اور مکالمے کے کلچر کو پروان چڑھاتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
تبدیلی کا پوسٹ مارٹمNode ID: 491896
-
اٹھارویں ترمیم: ’کورونا ہو یا نہ ہو ہم سڑکوں پر آئیں گے‘Node ID: 491986
-
بلاول بھٹو کو صدارتی آرڈیننس پر تحفظاتNode ID: 492896