دور سے کوہسار و وادی پر یہ ہوتا ہے گماں
اونٹ ہیں بیٹھے ہوئے اترا ہوا ہے کارواں
سلیس و سادہ زبان اورعام فہم تشبیہ سے آراستہ یہ خوبصورت شعر ابوالاثر حفیظ جالندھری کی ایک بھلی سی نظم کا ہے۔
جس نے پالان اور کجاوں کے بغیر اونٹ دیکھے ہوں وہ ’کوہ‘ کی’کوہان‘ سے نسبت کا لطف اٹھا سکتا ہے۔
شعر میں ایک لفظ ’کوہسار‘ استعمال ہوا ہے۔ اس میں پہلا لفظ ’کوہ‘ یعنی پہاڑ ہے جب کہ دوسرا لفظ ’سار‘ کثرتِ مقامی کا نمائندہ ہے، یوں ’کوہ سار‘ کے معنی ہوئے پہاڑی سلسلہ یا وہ جگہ جہاں بہت سے پہاڑ ہوں۔
مزید پڑھیں
-
دعوتِ سمرقند سے دعوتِ شیراز بھلیNode ID: 471336
-
آم کا مقابلہ اور مقابل اب بھی کوئی نہیں؟Node ID: 488626
-
قنات سے قناد اور قند سے کھنڈ تکNode ID: 490331
دلچسپ بات یہ ہے کہ ’سار‘ کے ایک معنی ’اونٹ‘ بھی ہیں۔ اسے ’ساربان‘ کی ترکیب میں دیکھ سکتے ہیں۔عرفان اللہ عرفان کا شعر ہے:
میں بے طرح کے کئی گیت گنگناتا ہوں
سفر میں جیسے کوئی ساربان بولتا ہے
اب لفظ ’کوہ‘ کو ذہن میں رکھیں اور لفظ ’کوہان‘ پرغور کریں بات آسانی سے سمجھ آجائے گی کہ ’کوہان‘ کی اصل ’کوہ‘ ہے۔
اردو زبان کے معروف ادیب، شاعر اور محقق وزیر آغا کی ایک آزاد نظم کا ابتدائیہ ملاحظہ کریں جس میں پہاڑ کی چوٹی کو ’کوہان‘ کہا گیا ہے:
تھکا ہارا بے جان بادل کا ٹکڑا
درختوں چٹانوں سے دامن بچاتا
پہاڑی کے کوہان سے نیچے اترا
کوہان کے بعد اب خود اونٹ پربات ہوجائے۔ ’اونٹ‘ ہندی زبان کا لفظ ہے۔ لہجے کے فرق کے ساتھ ’اونٹ‘ بہت سی زبانوں کی سیر کرتا نظرآتا ہے۔ مثلاً بنگالی میں ’اُٹ‘، تیلگو میں اونٹے، تامل میں اوٹّاکم (Oṭṭakam)، سنہالی میں ٹُوا (oṭuvā) یا آرمینیائی زبان میں Ught۔
اونٹ حالتِ سرشاری میں جو آواز نکالتا ہے اُسے ’بغبغانا‘ کہتے ہیں، جب کہ اُس کی عمومی آواز ’بَلبَلانا‘ کہلاتی ہے۔ واضح رہے کہ ’بَلبَلانا‘ کا لفظ ’بِلبِلانا‘ سے الگ ہے کہ ’بِلبِلانا‘ کے معنی میں گڑگڑانا، بے قرارہونا اورآہ زاری کرنا شامل ہے۔
سنسکرت اوراس کی ماجائی بہن فارسی میں اُونٹ کو بالترتیب ’اُشٹر‘ اور ’شُتر‘ کہتے ہیں۔ چوں کہ ’شُتر‘ کی گردن لمبی ہوتی ہے سو اس نسبت سے لمبی گردن والا سب سے بڑا پرندہ ’شُترمرغ‘ کہلاتا ہے۔ سنسکرت میں اونٹ کا ایک نام کرمیلا / kramela بھی ہے۔ اس سنسکرتی ’کرمیلا‘ کی اصل عربی کا ’جمل‘ ہے۔ یوں تو ’کرمیلا‘ اور’جمل‘ میں کوئی مناسبت دکھائی نہیں دیتی تاہم تھوڑی سی توجہ پر یہ تعلق واضح ہوجاتا ہے۔
پہلے یہ سمجھ لیں کہ عربی زبان میں اونٹ کا عمومی نام ’إبل‘ ہے، پھر اسی ’إبل‘ سے لفظ ’ابابیل‘ ہے جو اونٹ کے غول، جھنڈ اور ریوڑ کو کہتے ہیں۔ بعد میں لفظ ’ابابیل‘ کسی بھی چیز کے ’جُھنڈ‘ کے لیے عام ہوگا۔ اسے آپ ’طیراً ابابیل‘(پرندوں کے جُھنڈ) کی ترکیب میں دیکھ سکتے ہیں۔
عمراور خصوصیات کے اعتبار سے عربی میں اونٹ کے سو سے زیادہ نام ہیں۔ جوان اورخوبصورت نراونٹ کو’جمل‘ کہتے ہیں۔ لفظ ’جمل‘ کی ایک خصوصیت ایسی ہے جو عربی زبان میں کسی اور لفظ کے حصے میں نہیں آئی۔
عربی زبان کے ایک بڑے عالم علامہ ابن جعفرمحمد ابن حبیب بغدادی کے مطابق:’جمع الجمع چھ مرتبہ سوائے لفظ ’جمل‘ کے اور کہیں نہیں آتی۔ چناچہ ’جمل‘ کی جمع ’اجمل‘ ہے اور اس کی جمع ’اجمال‘ ہے، جس کی جمع ’جامل‘ ہے اور اس کی جمع ’جمال‘ ہے، جس کی جمع ’جمالۃ‘ ہے اور اس کی جمع ’جمالات‘ آتی ہے۔
اردو میں لفظ جمل، جمال اوراجمل کا خوبصورت اور پُر معنی استعمال معروف شاعر جعفربلوچ کے ایک شعر میں ملتا ہے۔ یہ شعر انہوں نے اپنے دوست اور مشہور کالم نویس اجمل نیازی کے سراپے کو پیش نظر رکھ کر کہا تھا:
عیاں یہ بات تری ایک ایک کل سے ہے
کہ تُو جمال سے اجمل نہیں، جمل سے ہے
عربی کا جمل (اونٹ) اپنی ہم قبیلہ زبان عبرانی میں ’گھمال/جیمل‘ اورانگریزی میں کیمل (Camel) ہے۔ اس Camel کو بہت سی یورپی زبانوں میں لہجے کے فرق کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔ مثلاً یہ یونانی زبان میں کمِیلا(Kamíla)، ہسپانوی میں کامیلو (Camello) اورجرمن زبان میں کامیل(Kamel) ہے۔
اب ذرا یونانی کے کمِیلا(Kamíla) کے ساتھ سنسکرت کے کرمیلا (Kramela) پرغور کریں آپ کو اس میں ’جمل‘ نظر آجائے گا۔
مزید پڑھیں
-
’انور‘ کو ’مہ‘ سے کیا نسبت ہے؟Node ID: 460936