Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قنات سے قناد اور قند سے کھنڈ تک

قنّاد کے معنی ’قند ساز‘ اور ’حلوائی‘ کے ہیں (فوٹو:ٹوئٹر)
حال ہی میں نظر سے گزرنے والی ایک خبر کے مطابق ’ضلع سیالکوٹ کے 22 علاقوں کو کھاردار تارِیں اور کناتیں لگا کر سیل کیا جا چکا ہے، جبکہ سیل شدہ علاقوں میں پولیس کی نفری بھی تعینات کردی گئی ہے۔'
اس ڈیڑھ سطری خبر میں لفظ ’کھاردار‘ اور ’کنات‘ اور ’سیل شدہ‘ دونوں ترکیبں درست نہیں۔ وہ شے جو نمکین یا شوریلا خاصیت ہو ’کھار‘ یا ’کھاری‘ کہلاتی ہے۔ جیسے سمندر کا پانی کہ حد درجہ نمکین ہوتا ہے۔ پھر کنایۃً  نمک اور کھانے پینے کی اُن چیزیں کو جن میں نمک کرارا ہو ’کھارا یا کھاری‘ کہتے ہیں۔ ایسے میں ’کھاردار تار‘ کی ترکیب مضحکہ خیز بن جاتی ہے۔ درست ترکیب ’خاردار تار' ہے جس کے معنی کانٹوں والی تار ہے۔

کھاردار کے بجائے درست ترکیب ’خاردار تار' ہے جس کے معنی کانٹوں والی تار ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

جہاں تک لفظ ’کنات‘ کی بات ہے تو درست لفظ ’قنات‘ ہے۔ ’قنات‘ کپڑے کی دیوار یا اوٹ ہوتی ہے، زمین پر کھڑا کرنے کے لیے اس میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بانس سِلے ہوتے ہیں۔ گلی محلوں میں ہونے والی تقاریب میں ’قنات‘ شامیانے کا لازمی جُز ہوتی ہے۔ گمان ہے کہ اول اول اس کا استعمال خانہ بدوشوں میں ہوا جو بعد میں عام ہوگیا۔ اس ’قنات‘ کو آپ میرزا سلامت علی دبیر کے اس مصرع میں دیکھ سکتے ہیں:
’'نزدیک خیمہ رکھ دیا اور کھینچ دی قنات'
دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض پڑھے لکھے بھی ’قنات‘ کو’قناعت‘ لکھتے ہیں۔ جو ظاہر ہے کہ درست نہیں۔ ’قنات‘ ترکی جب کہ ’قناعت‘ عربی زبان کا لفظ ہے۔ ’قناعت‘ تھوڑے پر راضی ہوجانے کو کہتے ہیں۔ میر تقی میر کہہ گئے ہیں:
بڑی دولت ہے درویشی جو ہمرہ ہو قناعت کے
کہ عرصہ تنگ ہے حرص و ہوا سے تاجداروں پر
’قنات‘ اور ’قناعت‘ کا ہم آواز ایک لفظ ’قناّد‘ ہے۔ یہ لفظ اردو لغات میں تو ملتا ہے مگر عام بول چال سے باہر ہو چکا ہے۔ قنّاد کے معنی ’قند ساز‘ اور ’حلوائی‘ کے ہیں۔ اردو میں ’قنّاد‘ سے لفظ ’قنّادی‘ یعنی مٹھائی بنا لیا گیا ہے۔ اس قنّاد اور قنّادی کا رشتہ لفظ ’قند‘ سے ہے جو عربی میں میٹھے اور شیریں کو کہتے ہیں۔

'کھنڈ‘ یا ’کھانڈ‘ ہمارے یہاں بہت سی علاقائی زبانوں میں شکر اور دیسی شکر کے لیے بولا جاتا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

دلچسپ بات یہ ہے کہ عربی کے اس ’قند‘ کی اصل ہندی کا ’کھنڈ‘ یا ’کھانڈ‘ ہے۔ یہ لفظ ہمارے یہاں بہت سی علاقائی زبانوں میں شکر اور دیسی شکر(brown sugar) کے لیے اب بھی بولا جاتا ہے۔
خیر اس کھنڈ یا کھانڈ نے فارسی میں ’کند‘ کی شکل اختیار کی اور عربی میں پہنچ کر’قند‘ ہوگیا جب کہ انگریزی میں یہ ’candy‘ کی صورت میں مٹھاس بکھیر رہا ہے۔   
عربی میں میٹھے کو ’قند‘ کے علاوہ ’حلواء‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی سے لفظ ’حلویات‘ ہے جو مٹھائی کو کہتے ہیں۔ اردو کا حلوا عربی حلوے سے ایک درجے میں مختلف ہے۔ وہ یوں کہ عربی میں ہر طرح کا میٹھا حلوے کی تعریف میں داخل ہے، جب کہ اردو میں حلوے کا اطلاق خاص ہے جس میں ’حلوے‘ کا نرم ہونا بھی شامل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اردو میں کسی بھی آسان کام یا ہدف کو مجازاً ’حلوا‘ کہا جاتا ہے۔ یقین نہ آئے تو میر کے شعر میں دیکھ لیں:
میں جو نرمی کی تو دونا سر چڑھا وہ بدمعاش
کھانے ہی کو دوڑتا ہے اب مجھے حلوا سمجھ
جس طرح ہر کلیہ کا ایک استثنیٰ ہوتا ہے ایسے ہی اردو کے نرم حلوے کی تعریف میں ’حلوہ سوہن‘ کو استثنٰی حاصل ہے۔ یہاں ’ملتانی سوہن حلواء‘ مراد نہیں کہ وہ نرم ہوتا ہے، بلکہ مٹھائی قبیلے میں شامل اُس سخت گول ٹکیا کا ذکر ہے جو باریک کاغذ میں لپٹی ہوتی ہے اور اس میں اوپر کی جانب خشک میوہ جات پیوست ہوتے ہیں۔ یہ ٹکیا بھی ’حلوا سوہن‘ کہلاتی ہے۔ اس کے کھانے کے لیے دانتوں کا ہونا بلکہ مضبوط ہونا ضروری ہے بصورت دیگر اس کو صرف دیکھ ہی کر جی بہلایا جا سکتا ہے۔

 اردو میں حلوے کا اطلاق خاص ہے جس میں ’حلوے‘ کا نرم ہونا بھی شامل ہے (فوٹو: فیس بک)

میٹھے کے شوقین کے سامنے مٹھائی کا ذکر بھی ہو تو اس کے من میں لڈو پھوٹنے لگتے ہیں۔ ہم ان پھوٹنے والے لڈوؤں کو ایک مدت تک حلوائی کی دُکان سے متعلق سمجھتے رہےمگر یہ عقدہ بعد میں کُھلا کہ ان کا رشتہ برفی، امرتی اور جلیبی کے خاندان سے نہیں بلکہ آتش بازی  کے سامان سے ہے۔
اس حوالے سے انڈیا کے شاعر حیدر بیابانی کی نظم ’دیوالی‘ کے دو اشعار ملاحظہ کریں اور ہمیں اجازت دیں:
چاروں جانب دھوم دھڑاکا 
چھوٹے راکٹ اور پٹاخا 
گھر میں پھلجھڑیاں چھوٹے 
من ہی من میں لڈو پھوٹے  

شیئر: