Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کشمیر: پاکستان نے گزشتہ ایک سال میں کیا کچھ کیا

5 اگست کو ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے گی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا ایک سال مکمل ہو گیا ہے۔ پاکستان کی حکومت نے انڈین اقدام کا ایک سال پورا ہونے پر 5 اگست کو یوم استحصال کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اسلام آباد سے کشمیر جانے والی شاہراہ کا نام کشمیر ہائی وے سے بدل کر سری نگر ہائی وے رکھ دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے وزیر مواصلات مراد سعید نے تختی کی نقاب کشائی بھی کی۔ کشمیر ہائی وے کے سائن بورڈز پر بھی سر نگر ہائی وے لکھ دیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں 5 اگست کو ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی جائے گی اور کورونا ایس او پیز کے مطابق احتجاجی پروگرام بھی منعقد ہوں گے۔
پاکستان کی حکومت نے جو اقدامات کیے ہیں ناقدین کے مطابق ایک سال بعد بھی وہیں سے آغاز کیا جا رہا ہے جہاں سے سلسلہ رکا تھا۔ ناقدین کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حل اور کشمیریوں کی حالت زار میں تبدیلی کے لیے یہ اقدامات مددگار ثابت نہیں ہوئے۔
پاک انڈیا تعلقات
5 اگست 2019 کو انڈیا نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے لیے آرٹیکل 370 اور 35 اے منسوخ کر کے کشمیر کو اپنا حصہ بنایا تو پاکستان کی حکومت نے فوری طور پر خارجہ پالیسی کے لیے سب سے بڑے فورم قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا۔
قومی سلامتی کمیٹی نے انڈیا کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات محدود کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے انڈیا کو اپنا ہائی کمشنر واپس بلانے، انڈیا کے ساتھ تجارتی تعلقات منقطع کرنے اور 14 اگست یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔ ایک سال گزر جانے کے باوجود ادویات کے سوا پاکستان اور انڈیا کے درمیان تجارت بند ہے جبکہ سفارتی تعلقات بھی معمول پر نہیں آ سکے۔

اسلام آباد سے کشمیر جانے والی شاہراہ کا نام کشمیر ہائی وے سے بدل کر سری نگر ہائی وے رکھ دیا گیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

دونوں ممالک کی سیاسی اور سفارتی قیادت کے درمیان کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ پورا سال کشمیر کی صورت حال کے باعث ایل او سی پر صورت حال کشیدہ رہی۔ پاکستانی دفتر خارجہ انڈین ہائی کمیشن کے ناظم الامور یا اعلیٰ عہدیدار کو طلب کر کے ہر دوسرے روز احتجاج کرتا رہا ہے۔

کشمیر اور پارلیمان

انڈیا کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے تیسرے دن ہی پاکستان کی پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلایا گیا۔ جس میں کشمیریوں کی حمایت اور انڈین اقدامات کی مذمت کی گئی تھی۔
اب بھی 5 اگست بروز بدھ کو سینیٹ آف پاکستان کا خصوصی اجلاس طلب کیا گیا ہے جس میں کشمیر کے حوالے سے بحث کی جائے گی۔
پاکستان کی پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی نے 14 اگست اور پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر بھرپور انداز میں منانے کا اعلان کیا۔ اس سلسلے میں کئی ایک پروگرام بھی تشکیل دیے اور ان کا انعقاد کیا گیا۔

کرفیو کلاک

وفاقی حکومت نے شاہراہ دستور اور پاکستان کے مختلف ائرپورٹس پر کرفیو کلاک بھی نصب کیے جن پر انڈیا کے زیر انتطام کشمیر میں کرفیو کے دن گھنٹے اور منٹ دکھائے جا رہے ہیں۔

5 اگست 2019 کو انڈیا نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے لیے آرٹیکل 370 اور 35 اے منسوخ کیا گیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ہر جمعہ آدھا گھنٹہ کشمیر کے نام

قومی سلامتی کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں گزشتہ سال 14 اگست یعنی یوم آزادی پاکستان کو یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا گیا اور پاکستان کے ساتھ ساتھ کشمیر کے جھنڈے بھی لہرائے گئے تھے۔ اب کی بار بھی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے وزیر خارجہ کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب میں عوام سے اپیل کی ہے کہ 5 اگست کو کشمیر کا جھنڈا اپنے گھروں کی چھتوں پر لہرائیں۔
گذشتہ سال 14 اگست کو پاکستان کے پریڈ گراونڈ میں حکومت کی جانب سے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا ایک جلسہ بھی منعقد کیا گیا تھا جس سے وزیر خارجہ وزیر دفاع وزیر امور کشمیر سمیت متعدد حکومتی راہنماوں نے خطاب کیا تھا۔
اس کے علاوہ وزیر اعظم نے ہر جمعہ کو آدھا گھنٹہ کشمیریوں کے لیے کھڑا ہونے کا اعلان کیا تھا۔ جمعہ کے روز تمام سرکاری دفاتر، سکول اور کالج گیارہ بجے چحٹی کرکے پاکستان اور کشمیر کے پرچم اٹھا کر سڑکوں پر نکلتے تھے اور آدھا گھنٹہ احتجاج کرتے تھے۔
یہ سلسلہ دو سے تین جمعے تک عمل ہوا تاہم بعد ازاں یہ سلسلہ خاموشی سے روک دیا گیا گیا۔
اس دوران دو دفعہ وزیر اعظم آفس کے دروازے عوام کے لیے کھولے گئے اور عوام کشمیری پرچم تھامے وزیر اعظم آفس کے سبزہ زار میں جمع ہوتے تھے اور وزیر اعظم ان سے خطاب کرتے تھے۔

دفتر خارجہ اور کشمیر

پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے صدر سلامتی کونسل اقوام متحدہ، جنرل سیکرٹری اقوام متحدہ اور او آئی سی کے جنرل سیکرٹری سمیت دیگر عالمی تنظیموں کے سربراہان کو متعدد خطوط لکھے۔ اپنے خطوط میں وزیر خارجہ نے اقوام عالم سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ وزیر خارجہ ن عالمی طاقتوں کو کو انڈیا کی جانب سے فالس فلیگ آپریشن کے خدشے سے بھی آگاہ کیا۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 40 کے قریب اپنے ہم منصبوں کے ساتھ فون پر رابطے کیے اور انہیں کشمیر کی صورت حال پر بریف کیا۔
قومی اسمبلی کی ایک اجلاس میں ان کی اس ٹیلی فونک سفارت کاری پر طنز کرتے ہوئے سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا تھا کہ انڈیا نے جتنا بڑا قدم اٹھایا ہے اس وقت پاکستانی وفود دنیا کے ہر بڑے کیپیٹل بالخصوص دوست ممالک میں موجود ہونے چاہئیں تھے۔ جس پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنی کوششوں کو 'کم خرچ بالا نشین' قرار دیتے ہوئے کہا تھا اصل مقصد دنیا تک آواز پہنچانا ہے اور وہ پہنچ رہی ہے۔
وزیر خارجہ کے خطوط کے نتیجے میں ہی انڈیا کے اس اقدام کے بعد کم و بیش 50 سال بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر ایجنڈے پر آیا۔ پاکستان کی درخواست پر بلائے گئے اجلاس میں 16 اگست 2019 کو سلامتی کونسل کے ارکان نے اس صورت حال پر مشاورت کی تاہم اس مشاورتی اجلاس کے بعد اس معاملے پر کوئی پیش رفت یا دوبارہ اجلاس بلانے پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔
پاکستان کی دفتر خارجہ کی ترجمان کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کے کشمیر میں ہونے والے کاوراٗیوں پر اپ ڈیٹ اور اسی طرح پاکستانی قیادت کی بین الاقوامی ملاقاتوں یا روابط میں کشمیر پر بات چیت ایجنڈے میں سب سے اوپر ہوتی ہے۔

خطوط میں وزیر خارجہ نے اقوام عالم سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ فائل فوٹو: پی آئی ڈی

وزیراعظم کا جنرل اسمبلی سے تاریخی خطاب

27 ستمبر کو وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے پہلی مرتبہ خطاب کیا۔ ان کے خطاب کا محور کشمیر تھا۔ انھوں نے کہا کہ کشمیر کی صورتحال دو ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ شروع کروا سکتی ہے۔ اگر یہ جنگ ہوئی تو پاکستان آخری حد تک جائے گا۔ تاہم انھوں نے کہا کہ  یہ دھمکی نہیں بلکہ وارننگ ہے۔
وزیر اعظم کے اس خطاب کو اپوزیشن راہنماوں بالخصوص بلاول بھٹو زرداریہ نے بھی سراہا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف وزیر اعظم کے اس خطاب کو لے کر کئی ماہ تک پرجوش رہی اور وطن واپسی پر ائیرپورٹ پر پارٹی راہنماوں  اور کارکنان نے ان کا شاندار استقبال کیا تھا۔ اپنے استقبال کے لیے آنے والوں سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ 'ایسا لگ رہا ہے جیسے آج میں ورلد کپ جیت کر لایا ہوں۔'
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے علاوہ وزیر اعظم عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے دوسری ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات میں بھی ٹرمپ نے کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی پیش کش کو دہرایا تھا۔
یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی پہلی پیش کش کے دس دن بعد ہی انڈیا نے کشمیر کے حوالے سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر کے ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دی گئی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے 16 سے 19 فروری پاکستان کا دورہ کیا تھا جس میں پاکستانی قیادت نے انھیں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال بارے بریف کیا تھا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل در آمد کا کہا تھا۔

پاکستان کی بڑی اپوزیشن جماعتیں سمجھتی ہیں کہ حکومت کشمیر کے حوالے سے سرگرم پالیسی اپنانے میں ناکام رہی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

کشمیر اور او آئی سی

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کےسائیڈ لائن پر او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس کے علاوہ مختلف سطح پر اسلامی کانفرنس تنظیم کے کشمیر کے حوالے سے اجلاس ہوئے اور ان اجلاسوں کے اعلامیہ میں کشمیر مطالم بند کرنے پر زور دیا گیا۔ اس سلسلے کا آخری اجلاس 22 جون کو ہوا جس میں کشمیر پر رابطہ گروپ کے رکن ممالک کے نمائندگان نے شرکت کی تھی۔ 

کشمیر اور سیاسی جماعتیں

دوسری جانب حیران کن طور پر جھوٹی بڑی مذہبی جماعتوں کے وہ اتحاد جو عموماً کشمیر اور پاکستان کے دفاع کے نام پر آئے روز جلسے کیا کرتے تھے جن میں دفاع پاکستان کونسل سب سے زیادہ فعال تھا وہ پورا سال کہیں بھی نظر نہیں آیا۔
پاکستان کی بڑی اپوزیشن جماعتیں سمجھتی ہیں کہ حکومت کشمیر کے حوالے سے سرگرم پالیسی اپنانے میں ناکام رہی ہے۔ سابق وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کہتے ہیں کہ 'کشمیری ایک عرصے سے مظالم میں پس رہے ہیں اور ہم صرف کرفیو کلاک لگا کر دن گن رہے ہیں۔'
دوسری جانب پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری کا کہنا ہے کہ 'پاکستانی عوام تو کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن حکومت نے جو کرنا تھا وہ نہیں کر رہی بلکہ آئے روز نیا ڈرامہ کیا جاتا ہے۔ عمران خان تو مودی سے امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ مودی جیتے گا تو کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں مدد ملے گی۔'

شیئر: