Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اس وقت 'ملک کا دفاع سب سے اہم'،رام مندر کی تعمیر مؤخر

بابری مسجد کے تنازعے کا فیصلہ سپریم کورٹ نے گزشتہ سال کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا اور چین کے درمیان روز بروز بڑھتی کشیدگی کے پیش نظر اترپردیش کے شہر ایودھیا میں رام مندر ٹرسٹ نے مندر کی تعمیر کے منصوبے کو مؤخر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
خیال رہے کہ ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا تنازعہ کئی سال سے جاری تھا اور گذشتہ سال سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد رام مندر کی تعمیر کا راستہ ہموار ہو گیا تھا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر رام مندر ٹرسٹ کا قیام عمل میں آیا۔ اس ٹرسٹ نے اپنے ایک اعلامیہ میں کہا ہے کہ انڈیا اور چین کے درمیان سرحد پر حالات 'سنگین' ہیں اور ایسے میں ملک کا دفاع 'سب سے اہم' ہے۔
یہ فیصلہ لداخ میں وادی گالوان میں چین اور انڈین فوجیوں کے درمیان پرتشدد جھڑپ کے بعد کیا گیا ہے جس میں انڈیا کے کم از کم 20 فوجی ہلاک ہوئے  تھے۔
خبررساں ادارے پی ٹی آئی کے مطابق انڈین فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ٹرسٹ نے کہا ہے کہ مندر کی تعمیر کے لیے نئی تاریخ طے کی جائے گی۔ 
پی ٹی آئی کے مطابق رام مندر ٹرسٹ کے رکن انیل مشرا نے کہا کہ 'مندر کے تعمیر کی شروعات کے متعلق فیصلہ حالات کے پیش نظر کیا جائے گا اور اس کا باضابطہ اعلان کیا جائے گا۔'
ٹرسٹ نے وادی گالوان میں مرنے والے انڈین فوجیوں کو خراج تحسین پیش کیا جب کہ مختلف ہندو تنظیموں نے ایودھیا اور ملک کے مختلف حصوں میں چین کے خلاف مظاہرے کیے۔ 

انڈین فوجیوں کی ہلاکت کے بعد رام مندر کی تعمیر مؤخر کر دی گئی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سخت گیر ہندو تنظیم 'ہندو مہا سبھا' کے کارکنوں نے چینی پرچم نذر آتش کیا تو دوسری سخت گیر تنظیم 'وشو ہندو پریشد' کے اراکین نے چینی صدر شی جن پنگ کا پتلا جلایا اور چینی مصنوعات کو ضائع کیا۔
دوسری جانب مغربی بنگال میں انڈیا کی حکمراں جماعت بی جے پی کے کارکنوں نے چینی صدر کے پتلے کی جگہ شمالی کوریا کے سربراہ کا پتلا جلایا جسے سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
صحافی اجیت انجم کے غیر مصدقہ ٹوئٹر اکاؤنٹ سے لکھا گیا: 'ارے بھائی پتلا تو صحیح دشمن کا جلاؤ۔ شازش شی جن پنگ کی لیکن بی جے پی والے پتلا شمالی کوریا کے 'کنگ جونگ' کا جلا رہے ہیں۔ کہہ رہے ہیں 'چین کے پی ایم' جونگ کو جلائیں گے، مطلب حد کر دیا۔ کسی دن اخبار میں بھی نام نہیں پڑھا بھائی؟ جونگ کو بھی کنگ بول رہے ہیں۔'
اسی طرح رکن پارلیمان رام داس اٹھاولے جو 'گو کرونا گو' کے ایک ویڈیو کی وجہ سے مارچ میں شہ سرخیوں میں آئے تھے اور سوشل میڈیا پر نشانہ بنے تھے وہ ایک بار پھر سے خبروں میں ہیں۔
خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق انھوں نے اب یہ کہا ہے کہ چینی مصنوعات کے ساتھ چینی کھانے کا بھی بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ 'چائنیز فوڈ فروخت کرنے والے ریستوران پر پابندی لگا دینی چاہیے۔ میں لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ چینی فوڈ کا بائیکاٹ کریں۔'
سوشل جسٹس اور امپاورمنٹ کے نائب وزیر اٹھاولے کے اس بیان پر لوگوں نے انھیں ٹرول کیا اور پوچھا ہے کہ چینی فوڈ کے بارے میں وہ کتنا جانتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ ان کی جیو سٹریٹیجک سمجھ ہی اتنی ہے۔
نیوز 18 کے کنسلٹنگ ایڈیٹر پروین سوامی نے ٹویٹ کیا: 'عسکری خیال نزاکت کی انتہا پر۔ انڈین کسانوں کے اگائے اناج سے بنائے فوڈ، انڈین فیکٹریز میں پراسیس کیے گئے کھانے، اور انڈین ورکرز کے ذریعے پکائے گئے گوبھی منچورین اور چلی نوڈلز کے بائیکاٹ سے ہم صرف اپنے ملک کو تباہ کر سکتے ہیں اور اس طرح چین کے پاس حملہ کرنے کے لیے کوئی ہدف نہیں رہے گا۔'
بہت سے صارفین نے کہا ہے کہ منچورین کو چھوڑ دیں تو کسی نے کہا ہے کہ چین کے بنے چلی پوٹیٹو میں مرچ کہاں ہوتی ہے۔

شیئر: