انڈیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا آج باقاعدہ آغاز ہو گیا ہے۔ انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی ہندو عقیدے کے مطابق اترپردیش کے مقدس شہر ایودھیا پہنچے۔
وہاں وہ مندر کے لیے بھومی پوجن یعنی زمین کی پوجا میں شرکت کی اور مندر کے مقدس ترین مقام پر سنگ بنیاد کے طور پر چاندی کی ایک اینٹ رکھی۔
ملک کی میڈیا کی ساری توجہ اس وقت ایودھیا پر مرکوز ہے پل پل کی خبریں نشر کی جا رہی ہیں اور پورا ملک ایک رنگ میں ڈوبا ہوا ہے۔
مزید پڑھیں
-
بابری مسجد: فیصلہ ہندوؤں کے حق میںNode ID: 442386
-
بابری مسجد تنازع: کب کیا ہوا؟Node ID: 442396
-
اس وقت 'ملک کا دفاع سب سے اہم'،رام مندر کی تعمیر مؤخرNode ID: 486421
کانگریس کا مسجد کے تالا کھولنے سے لے کر اس کی انہدام میں بڑا کردار رہا ہے کیونکہ اس نے بروقت مسجد کے انہدام پر سخت کارروائی سے گریز کیا اور اکثریتی طبقے کو ناراض کرنے سے بچتی رہی اور آج وہ اس مقام پر ہے کہ مندر کی حمایت کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ان کے بڑے اور قدآور رہنما بھی اس اقدام کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔
ان سب کے دوران گذشتہ روز آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’بابری مسجد ایک مسجد تھی اور ہمیشہ مسجد رہے گی۔ زمین پر غاصبانہ اور ناجائز قبضہ اور اکثریت کو خوش کرنے کا شرمناک فیصلہ اس کی حیثیت کو بدل نہیں سکتا ہے۔ دل گرفتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ حالات ہمیشہ یکساں نہیں ہوتے۔‘
#BabriMasjid was and will always be a Masjid. #HagiaSophia is a great example for us. Usurpation of the land by an unjust, oppressive, shameful and majority appeasing judgment can't change it's status. No need to be heartbroken. Situations don't last forever.#ItsPolitics pic.twitter.com/nTOig7Mjx6
— All India Muslim Personal Law Board (@AIMPLB_Official) August 4, 2020
اس کے ساتھ انھوں نے اردو زبان میں تحریر اپنے مؤقف کو دہرایا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ ’آج جبکہ بابری مسجد کے مقام پر ایک مندر کی بنیاد رکھی جا رہی ہے، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اپنے دیرینہ مؤقف کو دہرانا ضروری سمجھتا ہے کہ شریعت کی روشنی میں جہاں ایک بار مسجد قائم ہوجاتی ہے وہ قیامت تک مسجد رہتی ہے۔ لہٰذا بابری مسجد کل بھی مسجد تھی اور آج بھی مسجد ہے اور انشاءللہ آئندہ بھی مسجد ہی رہے گی۔ مسجد میں مورتیاں رکھ دینے سے، پوجا پاٹ شروع کر دینے سے یا ایک لمبے عرصے تک نماز پر پابندی لگا دینے سے مسجد کی حیثیت ختم نہیں ہو جاتی۔‘
اس میں مزید لکھا ہے کہ مسجد کی تعمیر کسی مندر کو توڑ کر نہیں کی گئی تھی جس کی توثیق سپریم کورٹ نے بھی کر دی ہے۔
انڈیا کے وزیراعظم کے ایودھیا جانے اور ان کے رام مندر کے بھومی پوجن میں شرکت کرنے پر رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے اسے وزیراعظم کے عہدے کے حلف اور ملک کے جمہوری اقدار کے منافی قرار دیا تھا۔
وزیراعظم کے ایودھیا میں پہنچنے سے قبل وہاں سکیورٹی انتظامات سخت کردیے گئے ہیں اور دوسری جانب کورونا کی وبا کی وجہ سے اس میں لوگوں کی شرکت محدود رکھی گئی ہے۔ لیکن میڈیا میں اس کی پل پل کی خبریں اور مختلف مقامات پر تقریب کی بڑی سکرین پر براہ راست نشریات سے سب کی شرکت کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ رام مند کی جس جگہ تعمیر ہو رہی ہے وہاں انڈیا میں مغل سلطنت کے بانی ظہیرالدین محمد بابر کے ایک امیر میر باقر نے سولہویں صدی میں ایک مسجد تعمیر کروائی تھی جسے 6 دسمبر 1992 کو ملک بھر سے جمع ہونے والے سخت گیر ہندوؤں کی ایک بڑی بھیڑ نے منہدم کر دیا تھا۔ اس وقت اترپردیش ریاست میں بی جے پی کی کلیان سنگھ کی قیادت میں حکومت قائم تھی اور مرکز میں پی وی نرسمہا راؤ کی قیادت میں کانگریس کی حکومت تھی۔
یہ دیرینہ مسئلہ گذشتہ سال نومبر میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حل کر لیا گیا تھا۔ فیصلے کے تحت مسلمانوں کو ایودھیا کے باہر پانچ ایکڑ زمین مسجد کے لیے دی گئی جبکہ جہاں بابری مسجد تھی وہ جگہ ہندو فریق کو دی گئی اور اس کے بعد وہاں مندر کے ٹرسٹ کے قیام کے بعد مندر کی تعمیر کے خاکے اور منصوبے تیار کیے جانے لگے۔
یہ مندر پہلے کے منصوبے کے مقابلے میں بڑی سطح پر تعمیر ہونے والا ہے کیونکہ اس کے لیے حکومت نے درجنوں ایکڑ اراضی کو قبضے میں لے لیا ہے۔
یاد رہے کہ جب سنہ 1992 میں رام مندر کی تعمیر کے لیے بی جے پی اور ديگر ہندوتوا تنظیمون نے ملک گیر مہم چلائی تھی اس وقت لوگوں نے ملک کے کونے کونے سے مندر کی تعمیر کے لیے جہاں عطیات دیے تھے، وہیں اینٹیں بھی بھیجی تھیں۔ اسی طرح آج میڈیا رپورٹس میں یہ باتیں سامنے آ رہی ہیں کہ عقیدت مند مندر کی تعمیر کے لیے سونے چاندی کے سکے یہاں تک کہ اینٹیں بھی بھیج رہے ہیں۔ انڈیا کے ایک اخبار دی ٹائمز آف انڈیا کے مطابق اب تک دولاکھ سونے کی اینٹیں جمع کی گئی ہیں اور ان پر رام کا نام کندہ کیا ہوا ہے۔
سوشل میڈیا پر اس سلسلے میں گرما گرم بحث جاری ہے۔ کانگریس کی سابق ترجمان اور اب شیوسینا کی رہنما پرینکا چترویدی نے لکھا ’یاد دہانی: تمام فریقوں کو سننے کے بعد سپریم کورٹ نے رام مندر کا فیصلہ کیا تھا۔ اور یہ کہ فیصلے کو بغیر کسی چیلنج کے قبول کیا گیا تھا، یہاں تک اس میں شامل لوگوں نے بھی چیلنج نہیں کیا۔ یہ بدقسمتی ہے کہ اس پر اتنی سیاست ہو رہی ہے۔‘
Reminder : Ram Mandir is a decision taken by the Supreme Court after hearing all sides. Also, that decision has been accepted without challenging it by even those who petitioned against it.
Unfortunate to see so much politics around it.
— Priyanka Chaturvedi (@priyankac19) August 5, 2020
اس کے جواب میں بہت سے لوگوں نے سپریم کورٹ کے غلط فیصلے کی جانب اشارہ کیا ہے، لیکن انڈیا کی معروف صحافی سگاریکا گھوش نے ایک علیحدہ ٹویٹ میں لکھا ’ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر ایک مسجد کو منہدم کرنے کے مجرمانہ عمل کے بعد ہو رہی ہے اور بھومی پوجن کا دن وہی رکھا گيا ہے جو کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے اور وہاں کے لوگوں کو بے عزت کرنے کا دن ہے۔ ایک ہندو کی حیثیت سے میں سینيئر مدیر پربھاش جوشی کو نقل کروں گی: ’یہ تو رگھوکول نہیں ہے۔‘ یعنی ’یہ رام کی نگری تو نہیں۔‘
The #RamMandirAyodhya is being built after the criminal act of demolishing a mosque and the #BhumiPujan date is the same as the day Kashmir was split into UTs and its people humiliated. As a Hindu, I quote the lines of veteran editor Prabhas Joshi:yeh toh Raghukul nahin
— Sagarika Ghose (@sagarikaghose) August 5, 2020