معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک انڈیا میں ایک بار پھر تنازعے کا شکار نظر آتا ہے کیونکہ ملک کی حکمران جماعت اور اس سے منسلک جماعتوں کے رہنماؤں کی نفرت انگیزیوں کو نظر انداز کرنے کے اس پر الزامات لگائے گئے ہیں۔
انڈیا میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی نے حکمران جماعت بی جے پی پر فیس بک اور واٹس ایپ پر کنٹرول کرنے کے الزامات لگائے ہیں جبکہ ایک آر ٹی آئی ایکٹیوسٹ نے فیس بک اور الیکشن کمیشن کے رشتے پر بھی سوال اٹھایا ہے۔
مزید پڑھیں
-
لکھاری فیس بک کے لیے لکھیں اور پیسے کمائیںNode ID: 436201
-
انڈیا: پاکستانی ہندو خاندان کے 11 افراد ہلاکNode ID: 497706
-
انڈیا میں محبت کا مومی مجسمہNode ID: 498966
فیس بک اور انڈیا کی حکمران جماعت دونوں نے ان الزمات کو مسترد کر دیا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ فیس بک اپنی پالیسیوں کے نفاذ میں دوہرے معیار کو اپنانے کا مرتکب رہا ہے اور فیس بک نے بھی یہ تسلیم کیا ہے کہ اس ضمن میں ابھی بہت کچھ کیا جانا ہے۔
کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا: 'بی جے پی اور آر ایس ایس انڈیا میں فیس بک اور واٹس ایپ کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ان ذرائع سے وہ جھوٹی خبریں اور نفرت پھیلا کر ووٹروں کو پھسلاتے ہیں۔ آخر کار امریکی میڈیا فیس بک کا سچ سامنے لے آیا۔'
در اصل یہ سارا تنازع امریکی اخبار دی وال سٹریٹ جرنل کے ایک مضمون کا شاخسانہ ہے۔ اس میں بات انڈیا کی جنوبی ریاست تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے رکن اسمبلی ٹی راجا سے شروع کی گئی ہے جو اخبار کے مطابق فیس بک پر اور عوام کے سامنے یہ کہتے نظر آئے کہ روہنگیا مسلمان کو گولی مار دینی چاہیے، انھوں نے مسلمانوں کو غدار کہا اور مسجد کو زمین بوس کرنے کی دھمکی دی۔
भाजपा-RSS भारत में फेसबुक और व्हाट्सएप का नियंत्रण करती हैं।
इस माध्यम से ये झूठी खबरें व नफ़रत फैलाकर वोटरों को फुसलाते हैं।
आख़िरकार, अमेरिकी मीडिया ने फेसबुक का सच सामने लाया है। pic.twitter.com/PAT6zRamEb
— Rahul Gandhi (@RahulGandhi) August 16, 2020
فیس بک کے کارکنوں سے اس طرح کی نفرت انگیزیوں اور شر انگیزیوں کو اپنے پلیٹ فارم سے ہٹانے کی توقع کی جاتی ہے کیونکہ وہ ایسا دعویٰ کرتی ہے لیکن ٹی راجا کے علاوہ انڈیا کے بہت سے معاملے میں ایسا نہیں دیکھا گیا ہے۔
رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ اتنے سنگین اور حساس قسم کی پوسٹس ہیں کہ اس رہنما پر دنیا بھر کے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پابندی لگا دینی چاہیے لیکن ان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ بہر حال اب اس پوسٹ کو ہٹا لیا گیا ہے۔
اس مضمون میں انکھی داس نامی ایک خاتون پر الزام لگایا گیا ہے کہ انھوں نے بہت سی معلومات کو دانستہ طور پر دبا دیا۔ انکھی داس اکتوبر سنہ 2011 سے فیس بک کے لیے کام کر رہی ہیں اور وہ انڈیا میں فیس بک کمپنی کی پبلک پالیسی کی سربراہ ہیں۔
اس سے قبل وہ مائیکروسافٹ سے منسلک تھیں اور انھوں نے دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے جہاں وہ بی جے پی کی طلبہ ونگ اے بی وی پی سے مبینہ طور پر جڑی ہوئی تھیں لیکن ان کا تعلق انڈیا کی مشرقی ریاست مغربی بنگال سے ہے۔
انکھی پر یہ الزامات بھی ہیں کہ انھوں نے سنہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل بی جے پی کے جعلی اکاؤنٹس اور پیجز سے متعلق معلومات چھپائیں کہ انھیں ڈیلیٹ کیا گیا ہے۔
امریکی اخبار میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کمپنی نے اپنے اقتصادی مفادات کے تحت حکمران جماعت کے رہنماؤں کی نفرت انگیز تقاریر کو نہیں ہٹایا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فیس بک کے ملازمین نے اخبار کو بتایا کہ انکھی داس نے حکمران جماعت کے رہنماؤں کے رہنماؤں کی نفرت انگیز تقاریر پر فیس بک کے اصول کو نافذ کرنے کی مخالفت کی تھی۔
There needs to be a JPC probe into this. Global Facebook should take active measures in setting up an inquiry and finding the rot in their system as far as India is concerned and how the right-wing, Facebook and Whatsapp are hand in glove: @SupriyaShrinate pic.twitter.com/qW0tdpcuOy
— Congress (@INCIndia) August 18, 2020