Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نوکری ہو تو ایسی

کانگریس کی سربراہی ہمیشہ ایک ہی خاندان نے کی ہے۔ فوٹو اے ایف پی
انڈیا کی کانگریس پارٹی اگر بسکٹ یا شیمپو بنانے والی کوئی کمپنی ہوتی اور گذشتہ چھ برسوں سے اس کی سیل مسلسل گر رہی ہوتی، اور اتنی گر رہی ہوتی کہ سڑکوں پر لوگ پوچھنے لگتے کہ جب پروڈکشن بالکل بند ہے تو کمپنی چلا ہی کیوں رہے ہیں، اور چلا رہے ہیں تو دن بھر کرتے کیا ہیں، وقت کیسے گزرتا ہے اور تنخواہیں کیسے بٹتی ہیں، تو کیا ہوتا؟
اور تو جو ہوتا سو ہوتا لیکن کمپنی کے سی ای او کی چھٹی ہوئے اتنا وقت گزر چکا ہوتا کہ خود اسے بھی ذہن پر زور ڈالنے کے بعد ہی یہ یاد آتا کہ ہم بھی کبھی کانگریس بسکٹ کمپنی کے سربراہ ہوا کرتے تھے، کیا زمانہ تھا وہ، لوگ فیکٹری کے باہر لائن لگا کر تندور سے بسکٹ نکلنے کا انتظار کیا کرتے تھے۔ لیکن آجکل ایک دوسرا برانڈ پوری طرح چھایا ہوا ہے۔ وقت وقت کی بات ہے، ہوتا ہے۔
یا کانگریس انڈیا کی کرکٹ ٹیم ہوتی اور جب بھی میدان میں اترتی تو لوگوں کو پہلے سے پتا ہوتا کہ میچ کا نتیجہ کیا ہوگا، تو ٹیم کے کپتان کو فیئر ویل پارٹی دینے میں کتنا وقت لگتا؟ دونوں کپتان جب ٹاس کے لیے جاتے تو خود امپائر کہتے یار بال کیوں ضائع کر رہے ہو، سب کو معلوم ہے کہ کون جیتے گا اور کس نے ہارنے کا تہیہ کر رکھا ہے، اس لیے کیوں نہ ہار جیت کے فرق یا مارجن کا آپس میں بیٹھ کر فصلہ کرلو، اب ان میچوں میں لوگوں کی دلچسپی بالکل ختم ہوگئی ہے۔ 
لیکن کانگریس ایک خاندانی سیاسی پارٹی ہے۔ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے، اور اس بات کو بھی کافی وقت ہوگیا، لیکن اس سے پہلے ہمارے باپ دادا کے زمانے سے ہی پارٹی کا سی ای او ایک ہی فیملی سے ہوا کرتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اس میں کوئی برائی بھی نہیں تھی کیونکہ کمپنی منافع میں چل رہی تھی۔ ٹاٹا، بڑلا اور ریلائنس جیسی کمپنیاں بھی باپ سے بیٹے اور کبھی کبھی بیٹیوں کے ہاتھوں میں آتی ہیں، آپ نے کبھی کسی کو اعتراض کرتے ہوئے نہیں سنا ہوگا، بھئی ان کی جاگیر ہے جسے چاہیں دے دیں۔

گزشتہ پارلیمانی انتخابات کانگریس نے راہل گاندھی کی قیادت میں لڑے تھے۔ فوٹو اے ایف پی 

اس لیے جب موتی لال نہرو سے جواہر لال نہرو اور پھر اندرا گاندھی اور کچھ عرصے کے لیے سنجے گاندھی اور پھر کافی دنوں کے لیے راجیو گاندھی اور پھر ان کی بیوہ سونیا گاندھی اور پھر ان کے بیٹے راہل گاندھی اور ساتھ میں بہن پرینکا پارٹی کی رہنمائی کرتے رہے تو ہم یہ ہی سوچتے تھے کہ یہ جمہوریت ہے عوام جسے چاہیں گے منتخب کریں گے، جسے مسترد کردیں گے وہ خود بہ خود گھر بیٹھ جائے گا۔
لیکن ایسا ہو نہیں رہا۔ کانگریس کی حالت کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ جب بی جے پی کوئی الیکشن ہار بھی جاتی ہے تب بھی جشن ہی مناتی ہے کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ کانگریس کی حکومتیں آجکل بس پلک جھپکتے ہی ختم ہوجاتی ہیں۔ پہلے ایسا کرناٹک میں ہوا، پھر مدھیہ پردیش میں اور راجستھان میں بس ہوتے ہوتے رہ گیا۔ لیکن خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ نئے طوفان سے پہلے کی خاموشی ہو۔
لیکن حالات اب ایسے ہوگئے ہیں کہ تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ کسی نے گاندھی خاندان کے خلاف بغاوت کا پرچم بلند کیا ہے۔ زیادہ کچھ نہیں بس پارٹی کی اعلیٰ کمان کو ایک خط لکھ کر جس کا لب و لباب یہ ہے کہ آپ کو بھلے ہی خبر نہ ہوئی ہو لیکن اب فیکٹری میں تالا بندی کی نوبت آگئی ہے، پارلیمنٹ جاتے ہیں تو ڈھونڈنے سے ہی کوئی کانگریسی نظر آتا ہے اور جو مل بھی جاتا ہے اس کی بھی کم و بیش یہ ہی شکایت ہوتی ہے کہ پارٹی کی قیادت آجکل اس ’ڈان‘ کی طرح ہے جس کا ذکر سب نے سنا ہے اور جس سے سب ڈرتے بھی ہیں لیکن جسے دیکھا کسی نے نہیں۔
اس لیے کچھ رہنماؤں نے سونیا گاندھی کو خط لکھ کر کہا کہ پانی سر سے گزر رہا ہے اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو بہت دیر ہوجائے گی۔ خط کی خبر عام ہوئی تو سونیا گاندھی نے کہا کہ میں استعفیٰ دینا چاہتی ہوں، آپ میرے جانشین کا انتخاب کر لیجیے۔ لوگوں نے کہا کہ نہیں خط لکھنے والوں کا سر پھر گیا ہے، آپ ہی پارٹی کی قیادت کیجیے، اور اگر طبعیت اس کی اجازت نہ دے تو راہل گاندھی کو صدر بنا دیجیے۔

2004 میں سونیا گاندھی نے اٹل بہاری واجپئی کو شکست دی تھی۔ فوٹو اے ایف پی 

بس یہ ہی مسئلے کی جڑ ہے۔ گزشتہ پارلیمانی انتخابات کانگریس نے راہل گاندھی کی ہی قیادت میں لڑے تھے۔ انتخابات میں جو ہوا وہ تو آپ کو معلوم ہی ہے، اس لیے راہل گاندھی نے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا، کوئی اور کہاں صدر بننے کا خواب دیکھ سکتا تھا، اس لیے کرسی واپس ان کی والدہ سونیا گاندھی کو دے دی گئی جو کافی دنوں سے کافی بیمار ہیں۔
راہل واپس آنا بھی نہیں چاہتے اور راستے سے پوری طرح ہٹتے بھی نہیں۔ اور کانگریس کو لگتا ہے کہ سونیا گاندھی، راہل اور پرینکا کے علاوہ کسی میں اتنا دم نہیں ہے کہ پارٹی کو سنبھال سکے۔ انہیں کون سمجھائے کہ سیاست میں کبھی خلا نہیں رہتا، اس کی مثال خود کانگریس کے اندر بھی موجود ہے اور باہر دیکھنا چاہیں تو بی جے پی میں بھی۔ 
جب سنہ 2004 میں کانگریس نے سونیا گاندھی کی قیادت میں الیکشن لڑا تھا تو کس نے سوچا تھا کہ وہ اٹل بہاری واجپئی جیسے لیڈر کو ہرا دیں گی؟ اور پھر کانگریس 2014 تک اقتدار میں رہی۔ پھر کانگریس نے ایک سیاسی خلا پیدا کیا جسے نریندر مودی نے پر کیا۔ وہ بھی لال کرشن اڈوانی جیسے رہنما کی موجودگی میں اور ان کی مرضی کے خلاف، اب وہ کم سے کم دس سال حکومت کریں گے اتنا تو طے ہے۔
لیکن اگلے الیکشن میں انہیں چیلنج کرنے کے لیے کوئی ایسا لیڈر چاہیے جو فل ٹائم کمٹمینٹ کے ساتھ سیاست کرنے کے لیے تیار ہو۔ راہل گاندھی نے اب تک وہ کمٹمینٹ نہیں دکھایا ہے۔ وہ میچ سے ذرا پہلے نمودار ہوتے ہیں، لیکن میچ تو وہی ٹیمیں جیتتی ہیں جو پابندی سےنیٹ پریکٹس بھی کرتی ہوں۔

کانگریس پارٹی 2004 سے 2014 سے اقتدار تک رہی۔ فوٹو اے ایف پی 

اس لیے راہل گاندھی کےسامنے اب دو راستے ہیں۔ یا تو وہ اعلان کریں کہ میں فل ٹائم سیاست کروں گا اور مجھ سے ملنے کے لیے سینئر رہنماؤں کو ایسے انتظار نہیں کرنا پڑے گا جیسے نوٹ بندی کے زمانے میں اے ٹی ایم سے پیسے نکالنے کے لیے کرنا پڑ رہا تھا۔
سب لائن میں کھڑے رہتے تھے حالانکہ سب کو معلوم تھا کہ اے ٹی ایم میں پیسے نہیں ہیں۔ لیکن امید پر دنیا قائم ہے۔
یا پھر وہ کہہ دیں کہ روزانہ یہ کام اپنے بس کی بات نہیں ہے، اس لیے آپ ایک فل ٹائم صدر منتخب کر لیجیے اور جب میرا موڈ ہوگا تو میں اسے سپورٹ کرتا رہوں گا۔ فی الحال کوئی ایسا لیڈر نظر نہیں آتا جو ان کی جگہ لے سکے، لیکن اگر وہ پوری طرح پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو خود انہیں حیرت ہوگی کہ کتنی جلدی نئے رہنما فرنٹ لائن پر نظر آنے لگیں گے۔
یا پھر دوسرا راستہ یہ ہے کہ کانگریس پارٹی اپنا کاروبار بدل لے اور بسکٹ یا شیمپو بنانے لگے۔ برانڈ پہلے سے موجود ہے، اسے اتنے ہی لوگ جانتے اور پسند کرتے ہیں جنتے بی جے پی اور نریندر مودی کو، ہو سکتا ہے کہ دونوں چیزیں بہت مقبول ہو جائیں اور لوگ کہنے لگیں کہ دیکھو اس شخص میں کتنی صلاحیت ہے، کیا بسکٹ بنایا ہے، اور شیمپو کے تو کیا کہنے، میرے بال جھڑ رہے تھے لیکن اب دوبارہ جمنے لگے ہیں، چلو ملک کی باگ ڈور بھی اسی کے سپرد کر دیتے ہیں، ہماری طرح یہ ملک کا بھی حلیہ بدل دیگا۔
لیکن راہل گاندھی کو اگر سیاست ہی کرنی ہے تو دو تین کام کرنے ہوں گے۔ سب سے پہلے یہ کہ علاقائی رہنماؤں کے لیے زمین تنگ نہیں کی جائے گی، طاقتور رہنما وہیں سے ابھرتے ہیں۔ انہیں فیصلہ سازی کے عمل میں پارٹی کی اعلی قیادت کو بھی شامل کرنا ہوگا، ہائی کمان کا کلچر ہی سیاست اور جمہوریت کے لیے سب سے نقصان دہ ہوتا ہے، اور بے جے پی آجکل عروج پر بھلے ہی ہو وہاں بھی صرف دو ہی رہنما پارٹی اور حکومت کو پوری طرح کنٹرول کرتے ہیں، نریندر مودی اور ان کے معتمد امت شاہ۔

راہل گاندھی نے کانگریس کی صدارت سے استعفیٰ سے دیا تھا۔ فوٹو اے ایف پی

انہیں پارٹی میں اختلاف رائے کی گنجائش پیدا کرنی ہوگی لیکن اس سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ وہ صاف طور پر بتائیں کہ کانگریس پارٹی اب کس سیاسی نظریے پر عمل کرتی ہے۔ کیا وہ بی جے پی کے کٹر ہندوتوا کا مقابلہ سافٹ ہندوتوا سے کرے گی یا مضبوطی سے سیکولرازم کا دامن تھام کر ووٹروں سے کہے گی کہ اگر بی جے پی کی سیاست آپ کو پسند نہ آتی ہو یا اس میں آپ کو ملک کا مستقبل نظر نہ آتا ہو تو ہماری دکان بھی ابھی کھلی ہوئی ہے، ایک بار آزما کر ضرور دیکھیں۔
لیکن میں راہل گاندھی کی پریشانی بھی سمجھ سکتا ہوں۔ میرا موجودہ فون نمبر شاید پہلے کسی راشن کی سرکاری دکان والے کے پاس تھا۔ دن میں تین چار فون آ ہی جاتے ہیں: آج راشن تقسیم ہوگا کیا؟ میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ میری راشن کی دکان نہیں ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں ٹال رہا ہوں، کمپنی کو فون کر کے شکایت کی تو انہوں نے کہا کہ لوگوں کے پاس اگر یہ نمبر ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ راشن کی دکان کے مالک ہیں تو اس میں ہم کیا کرسکتے ہیں؟ آپ اپنا نمبر بدل لیجیے۔
مجھے لگتا ہے کہ بازار میں میری پہچان پہلے سے بنی ہوئی ہے، میرے لیے راشن کی دکان کھولنا بہتر آپشن ہے۔ یا پھر راہل گاندھی جیسی نوکری مل جائے، کاروبار کچھ بھی ہو، اور اس کی حالت کچھ بھی ہو، چاہے عملہ چھوڑ کر جارہا ہو یا بغاوت پر آمادہ ہو، ان پر آنچ نہیں آسکتی۔
نوکری ہو تو ایسی۔

شیئر: