پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد سے تعلق رکھنے والی صفیہ اور نگینہ بیگم فی الوقت انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے شمالی ضلع بارہمولہ میں رہائش پذیر ہیں۔
بارہمولہ سے مظفرآباد محض 125 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے لیکن دونوں یہ سفر، جو سری نگر – مظفرآباد روڈ کے ذریعے صرف چند گھنٹوں میں طے کیا جاسکتا ہے، ہزارہا کوششوں اور خواہشات کے باوجود بھی طے نہیں کر سکتی ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں انڈیا کی حکومت یہ کہتے ہوئے سفری دستاویزات فراہم نہیں کر رہی ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر انڈیا میں داخل ہوئی ہیں۔ یہی بات صفیہ اور نگینہ جیسی دیگر قریب 350 پاکستانی خواتین، ان کے کشمیری شوہروں اور بچوں سے بھی کہی جا رہی ہے۔
صفیہ اور نگینہ کی شادی 1990 کی دہائی میں ان کشمیری نوجوانوں سے ہوئی جو اسی دہائی میں لائن آف کنٹرول پار کر کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں داخل ہوئے تھے۔
ان کے شوہروں نے بھی ہزاروں کشمیری نوجوانوں کی طرح واپس کشمیر چلے جانے کے بجائے پاکستان کے مختلف شہروں میں اپنا کاروبار، نوکریاں اور شادیاں کی تھیں اور وہیں پر سکونت اختیار کی تھی۔
لیکن جب 2010 میں انڈیا اور اس کے زیر انتظام کشمیر کی حکومتوں نے 1989 سے 2009 تک پاکستان چلے جانے والے کشمیری نوجوانوں کی واپسی کے لیے ایک باز آباد کاری پالیسی کا اعلان کیا تو سینکڑوں کشمیری نوجوانوں کے دل وطن واپسی کے لیے دھڑکنے لگے اور انہوں نے واپسی کا فیصلہ کیا۔
واپسی کے خواہش مند نوجوانوں سے کہا گیا تھا کہ وہ واہگہ اٹاری، اسلام آباد اوڑی، چکن دا باغ پونچھ اور اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ نئی دہلی میں سے کسی ایک راستے سے واپسی اختیار کرسکتے ہیں۔
انڈیا کی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں رہائش اختیار کر چکے 4587 کشمیری نوجوانوں میں سے بازآباد کاری پالیسی کے تحت 489 نوجوان ہی واپس لوٹ آئے جنہوں نے واپسی کے لیے نیپال کا راستہ اختیار کیا۔ ان میں سے قریب 350 نوجوان اپنے پاکستانی بیوی بچوں کو بھی ساتھ لے آئے۔
باز آبادکاری پالیسی کے تحت ایک دہائی قبل اپنے شوہروں اور بچوں کے ساتھ کشمیر آنے والی 350 پاکستانی خواتین پچھتا رہی ہیں کہ وہ یہاں آکر مشکلات کے بھنور میں پھنس چکی ہیں۔ جب سے آئی ہیں ایک بار بھی پاکستان میں اپنے میکے نہیں جا پائی ہیں۔ انہیں انڈین شہریت مل رہی ہے نہ سفری دستاویزات دیے جا رہے ہیں۔
یہ پاکستانی خواتین اپنے عزیز و اقارب کے فراق میں مختلف ذہنی امراض کا شکار ہوچکی ہیں۔ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ایک دوسرے کے گھر جاتی ہیں۔ ان کو شکایت ہے کہ دونوں ممالک کی حکومتوں میں سے ان کی کوئی سنتا نہیں ہے۔
صفیہ، جن کے شوہر سید عرفان حسن شاہ پیشے کے اعتبار سے تاجر ہیں، نے نگینہ بیگم کے گھر پر اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'بازآباد کاری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ واپس لوٹنے والے کشمیری نوجوانوں اور ان کے افراد خانہ کو ہر سہولت فراہم کی جائے گی۔'
انہوں نے بتایا کہ 'یہاں پہنچننے پر جب ہم نے پاسپورٹ کے لیے اپلائی کیا تو ہم سے کہا گیا کہ چونکہ آپ غیر قانونی طور پر انڈیا میں داخل ہوئے ہیں اس لیے آپ کو سفری دستاویزات نہیں مل سکتے ہیں۔ حالانکہ حکومت نے کہا تھا کہ آپ جہاں سے بھی آنا چاہتے ہیں آ سکتے ہیں۔'
صفیہ کہتی ہیں کہ 'اگر ہم غیر قانونی طور پر یہاں آئے ہیں تو اس کی چھ یا سات ماہ قید مقرر ہے۔ ہمیں قید خانے میں ڈالنے کے بعد اپنے وطن واپس بھیجا جائے۔ نہیں تو خدا کے لیے ہمیں سفری اور شناختی دستاویزات فراہم کریں۔'
نگینہ بیگم، جن کے شوہر محمد رفیع میر ماڈل ٹاؤن سوپور میں امامت کرتے ہیں، نے بتایا کہ 'جب ایک لڑکی بیمار ہو جاتی ہے تو میکے سے کوئی آتا ہے۔ بھائی اور بہن خبر گیری کے لیے آتے ہیں۔ لیکن جب ہم بیمار ہو جاتے ہیں تو ہمارے پاس کوئی نہیں آتا ہے۔ ہم کمروں میں مسافروں کی طرح پڑے رہتے ہیں۔ ہم روتے ہیں کہ کاش ہمارا بھی کوئی ہوتا تو مشکل وقت میں ہماری مدد کو آتا۔ ہم یہاں بہت مصیبت میں ہیں۔ کھانا پینا اللہ سب کو دیتا ہے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'دل کے اطمینان اور سکون کے لیے ہم ایک دوسرے کے پاس جاتے ہیں۔ جب واپس اپنے گھروں کو آتے ہیں تو وہاں تنہائی اور مصیبت کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ ہم میں سے اکثر ذہنی امراض میں مبتلا ہوچکی ہیں۔ پاکستان میں ہمارے رشتہ دار گزر گئے تو ویڈیو کال کر کے ہمیں ان کے چہرے دکھائے گئے۔'
نگینہ بیگم کا کہنا ہے کہ 'ہم سے کونسی غلطی ہوئی ہے؟ ہمیں کس بات کی سزا دی جا رہی ہے؟ اللہ کے واسطے ہمیں یہاں سے نکالو۔ اتنے تنگ آچکے ہیں کہ ہم اب زہر کھا کر اپنی جانیں دیں گے۔ ہماری زندگی ہمارے لیے وبال جان بن گئی ہے۔'
کشمیر میں پھنسی یہ پاکستانی خواتین اب تک کئی بار سری نگر کی پریس کالونی میں اپنا احتجاج درج کر چکی ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ انہیں دنیا بھول چکی ہے۔
ان خواتین کی جانب سے گزشتہ روز سری نگر میں درج کیے گئے ایک احتجاجی مظاہرے میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی مصباح جنید نامی خاتون نے اردو نیوز سے بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم بار بار احتجاج کرتے ہیں لیکن کوئی ہماری سنتا ہی نہیں ہے۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں اور ہمارے بچوں کو حقوق ملیں۔ ہمارے بچوں کے پاس سفری دستاویزات ہیں نہ یہاں کی پہنچان۔'
'ہم بہت پریشان ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم چھ برسوں سے لاک ڈاؤن میں ہیں۔ ہم صرف اپنے گھروں تک ہی محدود ہیں۔ اگر آپ ہمیں یہاں پر تسلیم نہیں کرنا چاہتے ہیں تو خدا را ہمیں واپس بھیج دیں۔ ہم خواتین ہیں۔ ہمیں اپنے میکے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔'
مصباح جنید کہتی ہیں کہ 'ہم اتنے بے بس ہوچکے ہیں کہ ہم اب چاہتے ہیں کہ اپنے آپ اور بچوں کے سروں پر کفن باندھ کر سرحد پار کریں۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی آپشن بھی نہیں بچا ہے۔ جب کچھ ہوتا ہے تو ہمارے شوہروں کو پولیس اٹھا کر تھانوں میں بند کر دیتی ہے۔ ہم اکیلی عورتیں بچوں کے ساتھ گھروں میں پڑی رہتی ہیں۔ یہ کیسی زندگی ہے؟'
کشمیر میں پھنسی ان 350 خواتین کے مطالبات منوانے کے لیے سری نگر میں انسانی حقوق کے معروف کارکن و وکیل پرویز امروز اور کراچی میں ان کے ہم منصب انصار برنی نے بالترتیب کشمیر اور سندھ ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کر رکھی ہیں لیکن پیش رفت سست روی کا شکار ہے۔
پرویز امروز کے مطابق یہ صرف 350 خواتین کی بات نہیں ہے بلکہ ان کے بچوں سمیت قریب دو ہزار افراد کی بات ہے۔ ان کا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے۔ ان خواتین میں سے اب تک کم از کم دو نے خودکشی کی ہے۔ ایک خاتون نابینا ہوچکی ہے۔
کراچی میں مقیم انصار برنی نے اردو نیوز کو اپنے ویڈیو پیغام میں کہا کہ 'کشمیر میں کشمیریوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی خواتین بھی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہی ہیں۔ ان کی رہائی کے لیے انصار برنی ٹرسٹ مسلسل کوشاں ہے اور اب اقوام متحدہ میں بھی آواز اٹھانے جا رہا ہے۔'
انصار برنی کے بقول 'یہ پاکستانی عورتیں یہ سوچ کر کشمیر گئی تھیں کہ انہیں وہاں رہائشی حقوق ملیں گے۔ انہیں سفری دستاویزات ملیں گے۔ جہاں چاہیں گی وہاں جا سکیں گی۔ لیکن انہیں سفری دستاویزات فراہم نہیں کیے گئے۔'
انسانی حقوق کے نوجوان کارکن ڈاکٹر عبدالباسط نائیک نے اردو نیوز کو بتایا کہ 'باز آباد کاری پالیسی میں جو وعدے ان خواتین سے کیے گئے تھے وہ پورے نہیں کیے گئے ہیں۔ وہ اپنے والدین سے ملنا چاہتی ہیں لیکن ان کو سفری دستاویزات فراہم نہیں کیے جا رہے ہیں۔ ان کے بچے دوسرے ممالک میں پڑھنا چاہتے ہیں لیکن سفری دستاویزات فراہم نہ کیے جانے کی وجہ سے ایسا نہیں کر پاتے ہیں۔ جب یہ لوگ آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں جیلوں میں ڈالنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔'
ڈاکٹر عبدالباسط نائیک کا کہنا ہے کہ 'میں انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس معاملے کو دیکھ لیں تاکہ یہ ساڑھے تین سو کنبے ڈپرشن سے نکل کر ایک معمول کی زندگی گزار کر سکیں۔ انہیں ہر ایک سہولیت فراہم کی جانی چاہیے۔'
حقوق نسواں کے نوجوان کارکن ڈاکٹر امتیاز وانی کہتے ہیں کہ 'ان پاکستانی خواتین کو اُس وقت کی حکومت نے باز آبادکاری پالیسی کے تحت یہاں لایا تھا۔ انہیں لگا تھا کہ ہم کشمیر جا کر اچھے سے اپنی زندگی گزر بسر کریں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔'
انہوں نے بتایا کہ 'سفری دستاویزات نہ ملنے کی وجہ سے یہ خواتین مختلف مسائل سے دوچار ہیں۔ وہ یہ زندگی گزارتے گزارتے تھک چکی ہیں۔ میری حکومت سے اپیل ہے کہ انہیں سفری دستاویزات فراہم کی جائیں تاکہ یہ بھی اپنے میکے جا سکیں۔'