پانچ اگست 2019 کی صبح جب اہلیان کشمیر نیند سے اٹھے تو نہ صرف تمام تر مواصلاتی ذرائع کو معطل پایا بلکہ سخت ترین کرفیو کے نفاذ سے ہر سو چھائی خاموشی سے بھی ششدر رہ گئے۔
اس دن سے طاری خاموشی آج بھی برابر جاری ہے۔ بیچ میں مختصر وقفے کے دوران اگرچہ زندگی کی بحالی کی صرصر نے اس خاموشی کو توڑنے کی کمزور کوشش کی تھی لیکن پھر عالمی سطح پر پھیلنے والی کورونا وبا نے اس کو مزید سنگین ہی نہیں بلکہ خوفناک بھی کر دیا۔
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں گزشتہ ایک برس سے جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے تمام تر شعبہ ہائے زندگی از حد متاثر ہوگئے ہیں بلکہ بعض اہم شعبوں کی حالت ایسی ہے کہ ان کا دوبارہ بحال ہونا بعید از امکان محسوس ہورہا ہے۔
یہاں لوگوں کے ذہنوں میں مختلف النوع خدشات کا طوفان بپا ہے، ہر سو غیر یقینی صورتحال سایہ فگن ہے اور ہر کس و ناکس اپنے مستقبل کے بارے میں متفکر ہے۔
مزید پڑھیں
-
کشمیر کی ’خصوصی حیثیت ‘ ختم، بی جے پی کا انتخابی منشورNode ID: 414461
-
’سری نگر‘ کے نام کے پیچھے کیا راز ہے؟Node ID: 433476
-
’مسئلہ کشمیر پر بیرون ملک پاکستانیوں اور کشمیریوں کا کردار‘Node ID: 496466
یہاں کے حالات پر باریک بین نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ جنت بر زمین سے مشہور خطہ کشمیر میں کئی دہائیوں سے جاری انتہائی ناساز گار حالات کی وجہ سے جہاں زندگی کے جملہ شعبے دم بخود ہوگئے تھے وہیں سال گزشتہ کے انڈین حکومت کے یکطرفہ فیصلوں سے یہاں سب کچھ وینٹی لیٹر پر چلا گیا ہے۔
انڈین حکومت نے خصوصی آئینی حیثیت کی تنسیخ کو یہاں تعمیر و ترقی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور رشوت کے بازار کو ختم کرنے کا بنیادی موجب قرار دیا تھا لیکن گزشتہ ایک برس سے یہاں تعمیر و ترقی تو دور کی بات اس کے برعکس افلاس اور بے روزگاری کا گراف تشویش ناک حد تک اوپر چلا گیا ہے۔
کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے معاون جنرل سیکریٹری اور سابق وزیراعظم شیخ محمد عبداللہ کے فرزند ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ یہاں کہیں کوئی ترقی نظر ہی نہیں آ رہی۔
انہوں نے کہا: ’خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرتے وقت کہا گیا تھا کہ اب یہاں ترقی ہوگی لیکن کہیں کوئی ترقی نظر نہیں آتی، جو تعمیر و ترقی پہلے ہوئی تھی وہی موجود ہے، نیا کچھ بھی نہیں ہے بلکہ پرانے منصوبوں کی بھی اچھی طرح دیکھ بھال نہیں کی جا رہی ہے۔‘

نیشنل کانفرنس کے جنرل سیکریٹری نے کہا کہ یہاں سیکریٹریٹ میں اہم اور اعلیٰ عہدوں پر کوئی بھی مسلمان فائز نہیں ہے اور جو بھی کشمیری افسر ہیں انہیں کلیدی عہدوں سے دور رکھا جا رہا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے کشمیری رہنما اور سابق رکن اسمبلی محمد یوسف تاریگامی نے ارود نیوز سے گفتگو میں کہا: ’سال گزشتہ کے پانچ اگست کو جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا وہ کسی دشمن کے ساتھ بھی نہ ہو، یہاں آج بھی ہر گھر میں مایوسی اور ماتم ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ہمیں بے عزت کیا گیا اور ہمارے آئین کو ختم کر کے انڈیا کے آئین کو بھی مسخ کیا گیا۔
محمد یوسف تاریگامی نے کہا کہ 'اس نے (بی جے پی حکومت) نے اپنوں کے ساتھ بھی وفا نہیں کی اور ہمیں کبھی اپنا سمجھا ہی نہیں۔'
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں کرفیو کے نفاذ کے بعد گزشتہ ایک برس سے تعلیمی ادارے مسلسل مقفل ہیں اور ایسے میں تعلیمی حالات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ کشمیر میں بچوں کو تعلیمی نقصان ہی نہیں ہوا ہے بلکہ مسلسل تعلیمی اداروں سے دور رہنے کی وجہ سے ان کی نفسیات پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر الطاف حسین نامی ایک سکالر نے اردو نیوز کو بتایا: ’بچے سکولوں سے دور رہ کر صرف تعلیم کے نور سے ہی محروم نہیں ہو رہے بلکہ بے کار رہنے اور بری صحبتوں میں پڑنے سے ان کی نفسیات پر گہرے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ان بچوں کو اب دوبارہ تعلیم کی طرف مائل کرنا اگرچہ ناممکن نہیں لیکن اتنا مشکل ہے کہ اس پر بھی کافی وقت صرف ہوسکتا ہے۔‘
ان کے مطابق کشمیر میں طلبہ مختلف ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہو چکے ہیں اور ان میں تخلیقی صلاحیتیں مفقود ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔
الطاف حسین نے کہا کہ طلبہ میں خصوصی آئینی حیثیت کی تنسیخ اور اس کے بعد نافذ کیے جانے والے قوانین بشمول ڈومیسائل اسناد کے اجرا کے پیش نظر کیریئر کے حوالے سے مختلف النوع خدشات و تحفظات ہیں جس سے ان میں تعلیم میں عدم دلچسپی کا عنصر پروان چڑھ رہا ہے۔
ڈاکٹر تجمل الاسلام نامی سکالر کا کہنا ہے کہ ’یہاں لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن کلاسز لینے کو کہا گیا لیکن یہ بات بھول گئے کہ ایک سال سے سست رفتار انٹرنیٹ چل رہا ہے اور حالات کے کروٹ بدلتے ہی وہ بھی بند کر دیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس سال کے دوران جو تعلیمی نقصان ہوا ہے اس کی تلافی ناممکن ہے۔

پانچ اگست 2019 سے کشمیر میں ہرطرح کی تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہیں۔ اس کے علاوہ بے روزگاری کا گراف اوپر چلا گیا ہے جس سے ذہنی امراض میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا۔
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینیئر نائب صدر ناصر حمید خان نے کشمیر کی معیشت کی ناگفتہ بہہ حالت کی روداد بیان کرتے ہوئے بتایا: ’کشمیر کی معیشت کو اس ایک سال کے دوران چالیس ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا ہے۔
’درست اندازہ لگانا مشکل ہے، ماہرین ہی صحیح تخمینہ لگا سکتے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ یہاں اب معیشت کے چلنے کی بات تو دور اس کی بحالی کے دور تک آثار نظر نہیں آ رہے۔‘
انہوں نے کہا کہ کشمیر کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی مانا جانے والا شعبہ سیاحت آخری سانسیں لے رہا ہے اور اس سے وابستہ لوگوں کا روزگار مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے۔
ایک ٹور آپریٹر نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ شعبہ سیاحت سے وابستہ تمام لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا ’شعبہ سیاحت سے وابستہ لوگوں کے گھروں میں چولھا جلنا بند ہوگیا ہے اور ہم میں سے اکثر اب دوسرے شعبوں میں مزدوری کر کے اپنے اہل و عیال کی کفالت کی سبیل کر رہے ہیں۔‘
