Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

'اعضا کی پیوندکاری، مریض ہی ایجنٹ'

'انسانی اعضا کی غیر قانونی پیوندکاری میں مرکزی کردار ڈاکٹر یا ٹیکنیشن کا ہوتا ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں انسانی اعضا کی غیرقانونی پیوند کاری کے حوالے سے ہونے والی تازہ ترین تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ اس کام میں ملوث ڈاکٹرز اور میڈیکل ٹیکنیشنز کے زیادہ تر ایجنٹ ان کے وہ مریض ہیں جو خود گردے یا جگر کا ٹرانسپلانٹ کروا چکے ہیں۔
حال ہی میں لاہور سے انسانی اعضا کی پیوند کاری میں ملوث سات رکنی گروہ کو گرفتار کرنے والے ایف آئی اے پنجاب زون ون کے ڈپٹی ڈائریکٹر سردار ماواران خان نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا ہے کہ 'انسانی اعضا کی غیر قانونی پیوندکاری میں مرکزی کردار اس ڈاکٹر یا ٹیکنیشن کا ہوتا ہے جو خفیہ مقامات پر ایسے مراکز قائم کرتے ہیں جہاں لوگوں کے ٹرانسپلانٹ کیے جاتے ہیں۔ یہ ڈاکٹرز سیٹ اپ لگانے کے بعد ایجنٹس تیار کرتے ہیں۔'
انھوں نے بتایا کہ 'عموماً جو افراد ان ڈاکٹرز سے پیوند کاری کرواتے ہیں وہی ان کے ایجنٹ بن جاتے ہیں۔ لاہور میں پکڑے گئے افراد میں سے تین ایسے افراد تھے جو ٹرانسپلانٹ کروا چکے تھے جبکہ تین کروانے جا رہے تھے۔'

 

سردار ماواران کے بقول 'یہ ایجنٹ بھٹے پر کام کرنے والے مزدوروں یا دیگر غریب افراد کو لالچ دے کر اعضا بیچنے پر قائل کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک نے انڈیا اور دو نے چین سے ٹرانسپلانٹ کروایا تھا۔'
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 'ابھی جو گینگ پکڑا ہے اس سے تحقیقات میں پتہ چلا ہے کہ وہ ان لوگوں کے پاسپورٹ بنوا رہے تھے جنھیں چین لے کر جانا تھا۔ ابھی تک کسی چینی ڈاکٹر کے ملوث ہونے کے بارے میں شواہد نہیں ملے کیونکہ چین میں ان کو وصول کرنے والا پاکستانی ڈاکٹر ہی ہے۔'
ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ ماضی میں اومان قطر اور دیگر خلیجی ممالک سے لوگ پاکستان آتے تھے اوریہاں پرغیر قانونی طور پرقائم ٹرانسپلانٹ سینٹرز سے مقامی ڈونرز سے اعضا خرید کر ٹرانسپلانٹ کرواتے تھے۔ یہ کام صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ انڈیا اور بنگلہ دیش میں بھی ہوتا ہے کیونکہ وہاں کی غریب آبادی بھی ایسے ایجنٹس کے  ہتھے چڑھ جاتی ہے۔'
ماضی قریب میں اداکار عمر شریف کی بیٹی کی اسی طرح غیر قانونی پیوند کاری کے دوران ہلاکت ہوئی تھی جس کے بعد ڈاکٹر فواد مختار کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔

سردار ماواران کے بقول 'یہ ایجنٹ غریب افراد کو لالچ دے کر اعضا بیچنے پر قائل کرتے ہیں' (فوٹو:اے ایف پی)

 
ایف آئی اے کے مطابق عمر شریف کی فیملی نے تو کیس کی پیروی سے انکار کیا تاہم انہوں نے ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی جاری رکھی ہوئی ہے۔

اعضا کی قانونی پیوند کاری کیسےممکن ہے؟

پاکستان میں اعضا کی پیوند کاری پر نظر رکھنے والے سرکاری ادارے کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر سید محسن نے اردو نیوز کو بتایا کہ کسی مریض کو گردہ یا جگرعطیہ کرنے کے لیے ڈونر کا اس کا قریبی رشتہ داریعنی ماں، باپ، بہن، بھائی یا بیٹا ہونا ضروری ہے۔'
محسن نوید کے مطابق 'اگر کسی وجہ سے ان رشتے داروں میں سے کوئی بھی ڈونر نہ بن سکتا ہو تو پھر خاندان کے دوسرے افراد، جن میں چچا زاد، ماموں زاد، پھوپھی زاد یا خالہ زاد جیسے رشتے شامل ہیں، اپنے اعضا عطیہ کر سکتے ہیں۔'
انہوں نے مزید بتایا کہ 'ڈونر کی تیسری قسم کی منظوری صرف اس صورت میں دی جاتی ہے جب خونی اور قریبی رشتہ داروں میں سے کوئی بھی کسی وجہ سے عطیہ کرنے کے قابل نہ ہو تو پھر کسی اجنبی ڈونر سے اعضا کا عطیہ لیا جاتا ہے۔ اس کے لیے بھی شرائط ہیں کہ ڈونر عطیہ وصول کرنے والے کو ذاتی طور پرجانتا ہو۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کا کسی بھی قسم کا ذاتی یا مالی مفاد وابستہ نہ ہو۔'
ڈاکٹر سید محسن کے بقول 'ایسی صورت میں ہم ایف آئی اے کے ذریعے تصدیق کرواتے ہیں کہ ڈونر نے پیسے تو نہیں لیے، کسی نے اسے مجبور تو نہیں کیا۔ ایسا تو نہیں کہ اسے ڈرا دھمکا کر یا اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھاکر گردہ لیا جا رہا ہے۔ ان تمام امور کی تسلی کے بعد ہی اتھارٹی منظوری دیتی ہے۔'

اداکار عمر شریف کی بیٹی کی غیرقانونی پیوند کاری کے دوران ہلاکت ہوئی تھی (فوٹو:سوشل میڈیا)

بعد از مرگ اعضا کا عطیہ

پاکستان میں حکومت اور ارکان پارلیمنٹ کی طرف سے اجتماعی اور انفرادی طور پر مرنے کے بعد اعضا عطیہ کرنے کے حوالے سے قانون سازی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
شریعت کورٹ کے 2008 کے فیصلے کے تحت قرار دیا گیا ہے کہ مرنے کے بعد اعضا عطیہ کرنا غیر اسلامی نہیں۔
موجودہ دور حکومت میں اس حوالے سے قوانین کو یکجا کرنے کے حوالے سے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور پارلیمانی سیکرٹری ڈاکٹر نوشین حامد نے ہیومن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی سے تمام بلوں سے متعلق تجاویز طلب کر لی ہیں۔
ایڈمنسٹریٹر ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی پروفیسر ڈاکٹر سید محسن نوید نے بتایا کہ 'ہم نے ایک تجویز یہ دی ہے کہ مرنے کے بعد اعضا عطیہ کرنے والے کے اعضا نکالنے کا اختیار صرف سرکاری ہسپتالوں کو دیا جائے اور اس کے لیے ہم نے اسلام آباد کے دو بڑے سرکاری اور راولپنڈی کے دو ملٹری ہسپتالوں کے نام تجویزکیے ہیں۔'
ان کے مطابق 'نجی ہسپتالوں کو اعضا نکالنے کی اجازت دینا ان کی سمگلنگ اور فروخت کا باعث بنے گا۔'

شیئر: