شام میں امریکی فوج میں اضافہ اور روسی فورسز کے ساتھ ٹکراؤ نے تشویش بڑھائی ہے کہ امریکہ ایران، روس اور ترکی کو ایک پیغام دینا چاہتا ہے، کیونکہ وہ اس خطے میں اپنے کردار کو بڑھانا چاہتا ہے۔
تاہم عرب نیوز کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ طاقت کے مظاہرے سے شام کے شمال مشرقی علاقے میں سٹیٹس کو کے تبدیل ہونے کے امکانات نہیں ہیں کیونکہ یہ علاقہ پہلے ہی امریکی اور کرد وائی پی جی فورسز کے کنڑول میں ہے۔
اس علاقے میں امریکہ کے پانچ سو فوجی تعینات ہیں اور اس نےعلاقے میں روس کا مقابلہ کرنے کے لیے چھ آرمرڈ گاڑیاں اور مزید ایک سو فوجی بھیجے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
شام میں تصفیے کے لیے پوتن کا کردارNode ID: 490326
-
شام میں امریکی تیل معاہدے پر ترک صدر طیب اردوان خاموشNode ID: 496176
-
’شام میں قطر کی فنڈنگ کا پتا چلنے پر ترک جنرل کو مارا گیا‘Node ID: 496506
گذشتہ ماہ ایک روسی آرمرڈ گاڑی کے امریکی پیٹرولنگ وہیکل کے ساتھ ٹکرانے کے نتیجے میں سات امریکی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔
روس اور ترکی نے 15 اور 16 ستمبر کو انقرہ میں شام کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ تاہم وہ باغیوں کے زیر قبضہ صوبے ادلب میں ترکی کے 20 ہزار فوجیوں کی تعداد کم کرنے پر اتفاق کرنے میں ناکام رہے۔
روس توقع کر رہا ہے کہ پہلے یونے والے معاہدے کے تحت ترکی ایم فور ہائی وے کے جنوبی علاقے سے فوج کو نکالے، لیکن ترک حکام ایسا کرنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ منبجیب اور تل رفاعت میں وائی پی جی فورسز کا صفایا کرنا چاہتے ہیں۔
رشین انٹرنیشنل افیئرز کونسل میں انڈیپینڈنٹ سٹریٹیجک رسک کنسلٹنٹ الیکسے کھلیبنیکوو کا کہنا ہے کہ ترکی ادلب میں فوجیوں کو نکالنے کے بدلے میں روس سے بھی کچھ چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’روس چاہتا ہے کہ ترکی ایم فور ہائی کے جنوب سے اپنی فوج کو نکالے کیونکہ مارچ میں دونوں ممالک کے درمیان اس بات پر اتفاق ہوا تھا۔ جنوبی ادلب کے بدلے میں ترکی شمال مشرق اور کرد علاقوں میں کچھ رعایت چاہتا ہے اور اس سے شاید دونوں ممالک میں کوئی سمجھوتا ہو جائے۔‘
آکسفورڈ یونیورسٹی میں مشرق وسطیٰ کے ماہر سیموئیل رمانی کا کہنا ہے کہ شام میں امریکہ کی اضافی فوجیوں کی تعیناتی سے ترکی اور روس کے مذاکرات پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا اور نہ ہی ان کے تعلقات متاثر ہوں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ روس کے لیے ایک وارننگ شاٹ ہے کہ وہ شام میں امریکی فورسز کو نقصان نہ پہنچائے۔‘
عرب سنٹر میں مشرق وسطیٰ خارجہ پالیسی کے ماہر جو میکارون کا کہنا ہے کہ امریکہ نے شام میں اضافی فوج اس لیے بھیجی تاکہ وہاں پہلے سے موجود امریکیوں کا دفاع کیا جا سکے۔
