Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شام میں امریکی تیل معاہدے پر ترک صدر طیب اردوان خاموش

توقع کی جا رہی تھی کہ صدر طیب اردوان اپنے ردعمل کا اظہار کریں گے (فوٹو:روئٹرز)
تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی صدر کے ساتھ تنازعے سے بچنے کے لیے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان شمال مشرقی شام میں تیل سے متعلق ایک معاہدے پر خاموش ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق گذشتہ  ہفتے ہونے والے حیرت انگیز معاہدے کے تحت ڈیلاوئیر میں امریکی کمپنی ’ڈیلٹا کریسنٹ انرجی‘ کرد سربراہی میں قائم سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف)  کے زیرانتظام علاقے میں تیل تنصیبات تیار کرے گی۔
اس معاہدے کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کو وائٹ ہاؤس کی حمایت حاصل ہے اور یہ معاہدی امریکی ریپبلکن سیینیٹرلنڈسے گراہم اور ایس ڈی ایف کے رہنما مظلوم کوبانی کے درمیان بات چیت کے بعد ہوا۔
انقرہ ایس ڈی ایف کو شدت پسند گروہ کے طور پر دیکھتا ہے اور اسے کالعدم کردستان ورکرز پارٹی کی ایک سیاسی شاخ سمجھتا ہے،
توقع کی جا رہی تھی کہ ترک صدر رجب طیب اردوان اس معاہدے پر ناپسندیگی کا اظہار کریں گے۔
واشنگٹن میں عرب سینٹر کے مشرق وسطیٰ کے خارجہ پالیسی کے تجزیہ کار جو میکرون کہتے ہیں کہ شام میں ایس ڈی ایف کے زیرانتظام علاقوں میں ایک ناگزیر امریکی تیل معاہدے کے لیے  ترک صدر رجب طیب اردوان ٹرمپ کے ساتھ اپنے تعلقات کو خطرے میں نہیں ڈالیں گے۔ ’طیب اردوان جانتے ہیں کہ تیل ٹرمپ کے لیے کتنا اہم ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ کہ ’انقرہ نے امریکی حمایت کی بدولت شام اور لیبیا میں واضح سٹریٹیجک فوائد حاصل کیے ہیں اور اپنی سرحد سے کرد فورسز کو نہ صرف پیچھے دھکیلا ہے بلکہ لیبیا اور مشرقی بحیرہ روم میں صورتحال بھی تبدیل کی ہے۔‘
فوجی تجزیہ کار نوار سبان کا کہنا ہے کہ اس علاقے کے لیے امریکہ کے پاس منصوبہ ہے۔ ‘لیکن ہم معاہدے کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں جانتے، اس لیے انقرہ نے سخت ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔‘

شیئر: