سعودی عرب میں کنگ عبدالعزیز پبلک لائبریری ریاض میں نایاب سکوں اور کرنسیوں کا انمول خزانہ محفوظ ہے۔ یہ کرنسی نوٹ اور سکے سعودی ریاست کے قیام کی منزل بہ منزل تاریخ اور تبدیلیوں کے تاریخی گواہ ہیں۔
کرنسی نوٹ اور سکے بتاتے ہیں کہ بانی مملکت وطن عزیز کے قائد اعلیٰ کی حیثیت سے کیسے سیاسی چیلنجوں اور اقتصادی تبدیلیوں کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھے۔
العربیہ نیٹ کے مطابق 1902 میں آباؤ اجداد کی ریاست کی بازیابی کے لیے ریاض آمد سے لے کر سنہ 1953 میں اپنی وفات تک شاہ عبدالعزیز مملکت سعودی عرب کو بنانے، سنوارنے کے لیے اقدامات کرتے رہے- انہوں نے 1932عیسوی میں مملکت سعودی عرب کے قیام کا اعلان کیا-
جزیرہ نمائے عرب کے تمام علاقے اس وقت اقتصادی بدحالی کا شکارتھے۔ معاشرے کا ہر طبقہ متاثر تھا- ابتدا میں یہاں مختلف ممالک کے سکے رائج تھے۔ انڈین روپیہ، انگلینڈ کی سونے کی گنی اور فرانسیسی ریال سے لین دین ہوتا تھا۔
کنگ عبدالعزیز پبلک لائبریری میں موجود کرنسی نوٹوں اور سکوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مختلف ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ملک کو ایک لڑی میں پرونے کے لیے ہونے والے معرکوں کے اثرات بانی مملکت کے القاب اور سکوں و کرنسی میں بھی نظر آتے ہیں۔
شاہ عبدالعزیز نے 1921 اور 1925 کے دوران کاروبار کو منظم کرنے کے لیے سکوں اور کرنسی نوٹس کو منظم کرنا شروع کیا۔ آغاز میں کرنسی ریال اورعثمانی ریال پر انحصار کیا گیا۔ جب زیادہ کیش کی ضرورت پیش آئی تو نصف قرش اور ربع قرش کے تانبے کے سکے تیار کرائے گئے۔
نصف قرش اور ربع قرش کے سکوں کےاوپر 1343ھ کی تاریخ موجود ہے۔ یہ سکے ام القری میں بنائے گئے تھے۔ ان پر عبدالعزیز بن عبدالرحمن الفیصل السعود لکھا ہوا ہے۔ یہ سعودی عرب کے پہلے سکے تھے جو حکومت نے تیار کرائے تھے۔ شاہ عبدالعزیز نے اپنے اقتدار کے دوسرے سال 1344ھ سے پہلے اور اس کے بعد 2 مرتبہ نصف قرش اور ربع قرش کے سکے بنوائے- شاہ عبدالعزیز کے نام کے نیچے ’2‘ سن 2 نقش ہے۔
1927 میں شاہ عبدالعزیز کا لقب ’شاہ حجاز و نجد و ملحقہ علاقے‘ ہوا- اس کا اثر سکوں پر بھی پڑا۔ بانی مملکت نے عثمانی اور ہاشمی سکے اور نوٹس کا لین دین مکمل طور پر ختم کر دیا اور کوبر نیکل دھات سے ایک قرش، نصف قرش اور ربع قرش کے سکے بنوائے۔
چاندی کا پہلا سعودی ریال 1927 میں جاری کیا گیا۔ اس کے اوپر بانی مملکت کا مکمل نام عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود نقش کیا گیا۔ لقب کے طور پر ’ملک حجاز ونجد و ملحقاتھا‘ (شاہ حجاز و نجد و ملحقہ ریاستیں) چاندی والے ریال کے دوسری طرف نقش تھا۔
کنگ عبدالعزیز پبلک لائبریری میں محفوظ مختلف سکوں کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ جب ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ریاست میں مکمل متحدہ ریاست کی شکل اختیار کی اور 1932عیسوی میں اس کا نام مملکت سعودی عرب ہوا تو اس موقع پر چاندی کا نیا ریال بنوایا گیا۔ اس کے ایک طرف ’عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود، ملک المملکتہ العربیہ السعودیہ‘ (مملکت سعودی عرب کے فرمانروا عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود) نقش ہے۔ دو تلواریں اور کھجور کا درخت بنا ہوا ہے۔ چاندی کا یہ نیا ریال 1354ھ میں مکہ مکرمہ میں تیار کیا گیا۔ اس کے بعد کرنسی نوٹس اور دھاتوں کے سکے پے درپے جاری ہوتے رہے۔
مزید پڑھیں
-
ایک ریال کے کرنسی نوٹ کی جگہ دھاتی سکے آج سے رائج کئے جائیں گےNode ID: 253071
شاہ عبدالعزیز نے 20 اپریل 1952 کو سعودی عریبین مانیٹری ایجنسی (ساما) کے قیام کا حکم جاری کیا۔ ساما نے حاجیوں کے لیے عارضی دستاویزی کرنسی جاری کی- 1964 میں اس کا لین دین بند کردیا گیا- سعودی عرب میں پہلی بار کرنسی نوٹ 1958 میں جاری کیے گئے- یہ سو ریال، پچاس ریال، دس ریال، پانچ ریال اور ایک ریال کے نوٹ تھے- اس کے بعد کرنسی نوٹس یکے بعد دیگرے جاری ہوتے رہے البتہ جنوری 1984 میں 500 ریال کا نوٹ پہلی بار جاری ہوا۔