Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بسکٹ کا اشتہار جو قومی خبر بن گیا

 (فوٹو: ٹوئٹر مہوش حیات)
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے صحافی انصار عباسی کی درخواست پر ’گالا بسکٹ‘ کے اشتہار میں دکھائے جانے والے مناظر پر ایڈورٹائزنگ کمپنیوں کو تنبیہہ جاری کر دی گئی ہے کہ اشتہارات میں فحش اور غیر اخلاقی‘ مناظر سے دکھانے سے گریز کریں۔
پاکستانی صحافی انصار عباسی نے گذشتہ دنوں اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر گالا بسکٹ کے ایک اشتہار پر تنقید کرتے ہوئے عمران خان اور پیمرا سے درخواست کی تھی کہ ایسے اشتہارات پر پابندی عائد کی جائے۔ اداکارہ مہوش حیات اور دیگر نے ایک گانے پر ڈانس کرتے ہوئے اس تشہیری ویڈیو میں حصہ لیا تھا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اس بحث نے تب زور پکڑا جب انصار عباسی کی جانب سے پیمرا کے جاری کیے جانے والے نوٹیفیکشن کو شئیر کیا گیا۔ 
دیکھتے ہی دیکھتے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹرپر اداکارہ مہوش حیات ، گالا بسکٹ اور میرے دیس کا ہر رنگ نرالہ ٹرینڈز لسٹ میں نمایاں ہو گئے۔
بیشتر صارفین کا کہنا تھا کہ ایسے عمومی اشتہارات کلچر کا حصہ ہیں ان میں کوئی برائی نہیں۔ جب کہ دوسری جانب ایسے صارفین بھی تھے جن کا کہنا تھا کہ اگر خواتین کی جگہ ایسے اشتہارات میں مرد ڈانس کریں تب کسی کو بھی مذہبی روایات اور اخلاقیات کا خیال نہیں آتا۔ ایسے اصول مرد اور خواتین دونوں پر لاگو ہونے چاہیں۔
اداکارہ مہوش حیات گفتگو کا حصہ بنیں تو انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا ’ڈارلنگ، مجھے آپ کے اپروول کی ضرورت نہیں۔ میرے پاس اپنا (اپروول) ہے۔‘

اردونیوز سے بات کرتے ہوئے پاکستان ایڈورٹائزنگ ایسوسی ایشن کے قائم مقام سیکرٹری حماد طارق نے کہا ’ ہمیں پیمرا کی جانب سے سرکاری طور پر کوئی نوٹیفیکشن موصول نہیں ہوا البتہ سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والے نوٹیفکیشن کی تصدیق کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فی الوقت  گالا بسکٹ کا اشتہار بنانے والی ایجنسی کے بارے میں معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان ایڈورٹائزنگ ایسوسی ایشن اشہارات بنانے والی ایجنسیوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے اگر متنازع اشتہار بنانے والی ایجنسی کو پی اے اے کی ممبرشپ حاصل ہوئی تو ہم اس معاملے کو آٹھ اکتوبر کو ہونے والی بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں حل کرنے کی کوشش کریں گے۔‘
 اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے فری لانسر کرئیٹو ڈائریکٹر ندا اعجاز کا کہنا تھا کہ ’جب بھی کوئی اشتہار بنایا جاتا ہے تو اس سے پہلے ایک پورا آئیڈیا پلان کیا جاتا ہے تاکہ آگے چل کر اس کو مزید بہتر کیا جا سکے، اگر ہم گالا بسکٹ کے اشتہار کو دیکھیں تو انہوں نے شروعات بہت اچھی کی تھیں ’ میرے دیس کا بسکٹ گالا ’ جس میں ہر لحاظ سے کلچر کا رنگ نمایاں تھا اس کے بعد مختلف گلوکاروں کے ذریعے مختلف صوبوں کی زبان میں اس اشتہار کو دوبارہ بنایاگیا جو بہت پسند کیا گیا۔

پاکستان میں اس سے پہلے بھی  کئی اشتہارات متنازع بن چکے ہیں: فوٹو پکسابے

لیکن مسئلہ تب پیش آیا جب ہم کسی ایک جنس کو کسی برانڈ کی چیز کے ساتھ منسلک کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے  بسکٹ جو مرد اور عورت دونوں استعمال کرتے ہیں، اس بار بھی اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے برانڈ نے سیٹ سے لے کر گانے پر اچھا کام کیا مگر ماڈل کو ایک خاص انداز میں پیش کرنے کی وجہ سے معاشرے کے بہت سے لوگوں نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اشتہار 30 سیکنڈز کی فلم ہے۔ ان 30 سیکنڈز میں ہم دیکھنے والے کو آسانی سے معلومات کے ساتھ کوئی پیغام بھی پہنچا سکتے ہیں۔ ہمسایہ ملک انڈیا کی ایڈورٹائزنگ ایجنسیز اس طرح کے اشتہارات بنانے میں پاکستان سے بہتر کام کر رہی ہیں۔ پاکستان میں اشتہارات بنانے والی فرمز کو بھی اشتہارات کو بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘
اس سے قبل ماضی میں بھی کئی مرتبہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے پاکستانی معاشرے کی اخلاقیات کے منافی مواد دیکھانے پر کئی اشتہارات پر نہ صرف پابندی عائد کی جا چکی ہے بلکہ کئی بار لائسنس ہولڈرز ٹی وی چینلز مالکان کو ہدایات بھی دی جاتی رہی ہیں کہ وہ ٹی وی پر نشر ہونے والے مواد کی اچھی طرح جانچ پڑتال کریں۔
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں

شیئر: