پاکستان میں جب فیشن ڈیزائنرز نے کام شروع کیا تو اس وقت لوگوں کو زیادہ آگاہی نہیں تھی کہ ایک ڈیزائنر ویئر کی اہمیت کیا ہوتی ہے۔ فیشن ڈیزائنرز کو نہ صرف صارفین بلکہ اپنی فیملیز کو بھی سمجھانے میں وقت لگا کہ دراصل فیشن ڈیزائنگ کہتے کسے ہیں۔
اس کام کی سمجھ بوجھ وہی رکھتا ہے جس کو آرٹ میں دلچسپی ہے۔ آرٹ اور فیشن ڈیزائنگ لازم و ملزو م ہیں اور ہمارے فیشن ڈیزائنرز آرٹ اور فیشن ڈیزائننگ کے امتزاج کو بخوبی سمجھتے ہیں۔
شروع شروع میں دیکھا گیا کہ تقریباً تمام فیشن ڈیزائنرز ایک خاص طبقے کے لیے ملبوسات تیار کر رہے تھے۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا انہیں سمجھ آئی کہ فیشن ڈیزائننگ صرف ایک طبقے کی حد تک ملبوسات بنانے کا نام نہیں ہے بلکہ ہر طبقے کی خواتین کے لیے ملبوسات تیار کرنا اور ان کے فیشن کے شوق کو تسکین پہنچانا ہی ان کا اصل کام ہے۔
آج بڑے بڑے ڈیزائنر بھی ہر سیزن کی کلیکشن ہر طرح کے طبقے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ ڈیزائنرز کی تیار کردہ 2 ہزار روپے کی قمیص بھی مارکیٹ میں باآسانی دستیاب ہے جو ہر خاتون کے لیے غنیمت ہے۔
پہلے جو لوگ فیشن ڈیزائننگ اور ڈیزائنر جوڑے کو اہمیت نہیں دیتے تھے، جدید ٹیکنالوجی جب ان کے دروازوں پر آئی تو انہیں بھی سمجھ آنے لگی کہ ڈیزائنر ویئر کیا ہوتا ہے اور پوری دنیا اس شعبے میں کیا کر رہی ہے۔
آج گھر بیٹھے ہی ہم جان سکتے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پر کس طرح کا فیشن چل رہا ہے۔ اٹلی اور فرانس کی فیشن انڈسٹریز سے فیشن صحیح معنوں سے نکلتا ہے اور ان ملکوں کی فیشن انڈسٹریز کا ملکی ترقی میں بہت اہم کردار بھی ہے۔ اگر حکومت فیشن انڈسٹری کو سپورٹ کرے تو یہ بھی ہمارے ملک کی ترقی کی جانب مددگار قدم ہو سکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ’فیشن ایک لائف سٹائل ہے اورکسی بھی کام کو نفاست ،خوبصورت اور خاص انداز سے کرنا فیشن ہے۔‘
پاکستان میں فیشن ڈیزائننگ کے شعبے میں ماہین خان اور سحر سہگل بانی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ماہین اور سحر کم و بیش چار دہائیوں سے اس شعبے میں کام کر رہی ہیں۔
نیلوفر شاہد، وسیم خان نے 1980 کی دہائی میں جبکہ عمر سعید، دیپک پروانی، ماریہ بی، ایچ ایس وائی اور دیگر نے 1990 کی دہائی میں اس شعبے میں قدم رکھا اور آج تک اپنے کام کے ذریعے لوگوں کے دِلوں پر راج کر رہے ہیں۔
ہمارے ڈیزائنرز کی ہی کرامات ہیں کہ آج ہر گھر میں ہر دوسری خاتون اپنے آپ میں فیشن ڈیزائنر ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اسے کس تقریب پر کیسا اور کس فیشن ڈیزائنر کا سستے داموں جوڑا مل سکتا ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ آج ڈیزائنر ویئر ہر دوسری خاتون کی اولین ترجیح ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
معروف فیشن ڈیزائنر سیم علی دادا نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں جب یہ کام شروع ہوا تو اس وقت دنیا بھر میں ٹرینڈز بدل رہے تھے۔
’پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف فیشن اینڈ ڈیزائن سے پڑھ کر نکلنے والے ڈیزائنرز نے اس شعبے میں سنجیدگی سے کام کیا۔ اس کام کو پہلے صرف کپڑے سینے کا کام سمجھا جاتا تھا، اس کی بجائے اس کو تخلیقی کام سمجھا جانے لگا۔‘
سیم علی دادا کا کہنا تھا کہ جو ڈیزائنر مخصوص طبقے کے لیے ملبوسات بنا رہے تھے ان کو بھی احساس ہونے لگا کہ ہمیں ہر طبقے کے لیے کپڑے بنانے ہیں کیونکہ دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے۔
’اب کالج اور سکول کے بچے کو بھی معلوم ہے کہ پیرس، لندن اور نیویارک فیشن ویک میں کس طرح کا فیشن چل رہا ہے۔ فیشن کی دنیا میں کیا ہو رہا ہے، کس طرح کے کلرز چل رہے ہیں۔‘
سیم کے مطابق ایک فیشن ڈیزائنر کا کام کلائنٹ کے بجٹ کے حساب سے اچھا جوڑا تیار کرنا ہوتا ہے اور پاکستانی ڈیزائنرز اپنا یہ فرض بخوبی نبھا رہے ہیں۔
’ڈیزائنرز نے عام پبلک کو شعور دیا ہے کہ کس ایونٹ پر کس طرح کا جوڑا زیب تن کیا جانا چاہیے۔ آج گھر بیٹھی بچی کو پتہ ہے کہ اس نے کس تقریب میں کیا اور کس طرح کا جوڑا پہننا ہے، جو نہ صرف تقریب کی رونق کو دوبالا کرے بلکہ اس کی شخصیت کو مزید نکھارنے میں مدد دے۔‘
فیشن ڈیزائنر سیم علی دادا کا ماننا ہے کہ ایک ڈیزائنر جب تک عام لوگوں تک نہیں پہنچتا، اس کے کام میں تخلیق کا عنصر نہیں آتا، چند لوگوں کو کسٹمر بنا لینا کامیابی نہیں۔
سیم علی دادا کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی نئے شروع ہونے والے کام کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔
’ایک آرکیٹکٹ کو بھی پہلے سنجیدہ نہیں لیا جاتا تھا، سمجھتے تھے کہ اس کا کام صرف کاغذ پر چار لکیریں کھینچنا ہے۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ انتہائی اہم شعبہ ہے۔ اسی طرح سے فیشن ڈیزائنرز کی بھی قبولیت لوگوں میں اس قدر بڑھی کہ آج ہر عمر کی خاتون ڈیزائنر ویئر پر اعتماد رکھتی ہے۔‘