پاکستان کی وفاقی کابینہ نے 98 نئے اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز لائسنس کے اجراء، 18 لائسنس واپس لیے جانے، 10 کے ٹرانسفر جبکہ پانچ لائسنسوں کے دائرہ کار میں تبدیلی کی تجویز کی منظوری دی ہے۔
کابینہ کے فیصلے کے بعد اب ملک میں فعال اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کی تعداد دو ہزار 277 ہوگئی ہے۔
بیورو آف امیگریشن کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک چار ہزار 429 لائسنسز جاری کیے گئے ہیں جن میں سے دو ہزار 277 اس وقت فعال ہیں۔ 1133 لائسنس غیر فعال، 170 منسوخ اور 18 معطل ہیں۔ 710 اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز نے اپنے لائسنس سرنڈر کر دیے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
’اوورسیز فاسٹ ٹریک عدالتوں کا قیام آخری مراحل میں ہے‘Node ID: 504031
-
اوورسیز پاکستانی، کن شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع؟Node ID: 504376
-
اوورسیز پاکستانیز کمیشن ساؤتھ پنجاب کا قیامNode ID: 507656
اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کا کام کیا ہے؟
پاکستان کے امیگریشن قوانین کے تحت اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹر (او ای پی) كسی ایسے فرد كو معاونت فراہم كرنے والا غیر سرکاری ادارہ ہے جو بیرون ملک ملازمت کا خواہش مند ہوتا ہے۔
نجی شعبے میں اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز سمندر پار ملازمت میں اہم كردار ادا كر رہے ہیں۔ اوورسیز ایمپلا ئمنٹ پروموٹرز بالعموم پوری دنیا اور بالخصوص مشرقِ وسطیٰ میں پاکستانیوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع تلاش کرتے اور ڈیمانڈز لے کر پاکستان آتے ہیں۔
پروموٹرز پاکستانی ورکرز کو بیرون ملک ملازمتوں پر بھیجنے کے لیے اجازت نامے پاکستان بیورو آف امیگریشن، علاقائی دفاتر اور پروٹیکٹوریٹ سے حاصل کرتے ہیں۔ نوکری کے خواہش مند افراد کے کاغذات تیار کرکے ان کی متعلقہ پروٹیكٹر آف ایمیگرنٹس كے ساتھ رجسٹریشن كی جاتی ہے۔ رجسٹریشن كے وقت خواہش مند افراد كو معاہدے كی شرائط، قواعد اور ضابطوں اور میزبان ملک سے متعلق دیگر اہم معلومات كی مكمل بریفنگ دی جاتی ہے۔
ان تمام مراحل سے گزر کر ورکرز بیرون ملک روانہ ہوتے ہیں۔ اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز اس دوران اپنی خدمات انجام دیتے ہیں۔ ان خدمات کے بدلے میں وہ فیس وصول کرتے ہیں۔
اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کو لائسنس کیسے ملتا ہے؟
اوورسیز ایملائمنٹ پروموٹرز کے لائسنس کے لیے درخواست وفاقی حکومت کے ادارے پاکستان بیورو آف امیگریشن کو دی جاتی ہے۔ درخواست كے ہمراہ مطلوبہ معلومات، دستاویزات، سیكیورٹی اور لائسنس فیس کی ادائیگی کی جاتی ہے۔
درخواہست دہندہ کا انٹرویو کیا جاتا ہے اور بنیادی معلومات کی تصدیق کی جاتی ہے۔ پہلی دفعہ لائسنس حاصل کرنے کے لیے پانچ ہزار روپے پروسیسنگ فیس، 45 ہزار روپے تین برسوں کی فیس اور تین لاکھ روپے بطور سیکیورٹی جمع کروانے ہوتے ہیں۔ ان تین لاکھ میں سے دو لاکھ روپے کے ڈیفینس سیونگ سرٹیفکیٹس جبکہ ایک لاکھ روپے وزارت اوورسیز پاکستانیز کے ایک مخصوص اکاؤنٹ میں جمع کرائے جاتے ہیں جن کا منافع اوورسیز پاکستانیز فاونڈیشن کو جاتا ہے۔
کسی بھی لائسنس کی تجدید ایک دو یا تین سال کے لیے کی جاتی ہے اور سالانہ فیس 15 ہزار روپے ہے۔ اگر کسی بھی اوورسیز پروموٹر کے لائسنس کی مدت پوری ہو جائے تو لائسنس کی تجدید سے قبل اسے افراد کو بیرون ملک ملازمت پر بھیجنے کا اجازت نامہ نہیں ملتا۔
دوسری جانب کسی بھی اوورسیز پروموٹر کے خلاف شکایت آ جائے تو شکایت کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے لائسنس معطل کر دیا جاتا ہے۔ شکایت کی باضابطہ سماعت بیورو آف امیگریشن میں ہوتی ہے۔ اگر تو شکایت کنندہ موقف درست ثابت ہو جائے تو اوورسیز پروموٹر کو شکایت کا ازالہ کرنے کا کہا جاتا ہے۔ اگر وہ ازالہ کرنے کے لیے رضامند نہ ہو تو اس کا لائسنس معطل کر دیا جاتا ہے۔
جو لوگ اپنے لائسنس کی مدت پوری ہونے کے طویل عرصے تک ان کی تجدید نہیں کراتے تو وہ از خود ہی ختم تصور ہوتے ہیں۔ بعض اوقات کاروبار نہ چلنے کے باعث پروموٹرز لائسنس سرنڈر بھی کر دیتے ہیں۔
ایمپلائمنٹ پروموٹرز کی کارکردگی کیسے جانچی جاتی ہے؟
پاکستان بیورو آف امیگریشن کے مطابق اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کی کارکردگی جانچنے کا پیمانہ یہ ہے کہ وہ بیرون ملک سے پاکستانی ورکرز کے لیے ملازمتوں کے کتنے مواقع تلاش کرتے اور انہیں بیرون ملک بھیجتے ہیں۔
اس وقت 2100 فعال اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو 54 پروموٹرز ایسے ہیں جنھوں نے سال 2019 میں ایک ہزار سے پانچ ہزار تک پاکستانی ورکرز کو بیرون ملک روزگار فراہم کرنے میں کردار ادا کیا۔
رواں سال انہی 54 کی کارکردگی کو سامنے رکھا جائے تو 100 سے 2000 تک پاکستانی ورکرز کو بیرون ملک بھیجنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
پاکستان بیورو آف امیگریشن ان اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کی کارکردگی اپنی ویب سائٹ پر اپ ڈیٹ کرتا ہے۔ ماضی میں اچھی کارکردگی دکھانے والوں کے لیے باضابطہ طور پر کوئی مراعات نہیں دی گئیں تاہم وزارت اوورسیز پاکستانیز اس سلسلے میں نئے قواعد مرتب کر رہی ہے۔ ان قواعد میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کے لیے مراعات شامل کیے جانے کا امکان ہے۔
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں