فراڈ کے لیے سعودی عرب کے بااعتماد اداروں کے نام بھی استعمال کیے گئے (فوٹو: پکس فیول)
دھوکہ آمیز آن لائن پیغامات اور اشتہارات ڈیجیٹل دنیا میں عام ہیں اس لیے یہ حیران کن بات نہیں ہے کہ کچھ سعودی شہری ان کا شکار ہو رہے ہیں۔
کچھ واقعات میں یہ دھوکے باز لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ان کی رقوم خطرے میں ہے اور کچھ دوسرے میں یہ پیسے کمانے کے آسان طریقے بتاتے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق حال ہی میں کچھ لوگوں کو میسیجز بھیج کر بتایا گیا کہ ان کے بینک اکاؤنٹس خطرے میں ہیں اور ان کو محفوظ بنایا جائے اور اس طریقے سے ان سے نجی معاشی تفصیلات حاصل کی گئیں۔
ایک اور طریقے میں مملکت کے بااعتماد اداروں جیسے کہ سعودی عریبین مانیٹری اتھارٹی (ساما) یا پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کے نام سرمایہ کاری کے جعلی اشتہارات میں استعمال کیے جاتے ہیں۔
ریٹائرڈ انجینیئر ایم المنصوری اس دن کو پچھتا رہے ہیں جب انہوں نے ایک ایسی ٹیلی فون کال پر جواب دیا تھا جس میں کسی نے ایک سرکاری ادارے سے کال کرنے کا دعوٰی کیا تھا۔ بالآخر انہیں 50 ہزار سعودی ریال کا نقصان اٹھانا پڑا۔
اس فون کال پر جس خاتون سے ان کی بات ہوئی انہوں نے ان کو بتایا تھا کہ ان کی ذاتی معلومات بشمول سعودی شناخت کی تفصیلات اور بینک کارڈ کے آخری چار ہندسوں کی تصدیق کرنی ہے۔
المنصوری نے بتایا کہ ’آدھے گھنٹے سے کم وقت میں مجھے ایس ایم ایس پیغامات ملے کہ میرے بینک کارڈ کی تفصیلات پیسے حاصل کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھیں۔‘
’میں نے سمجھا کہ کچھ غلطی ہو گئی ہے لیکن میسیج آنا بند نہیں ہوئے اور مجھے اچانک پتہ چلا کہ میرے اکاؤنٹ سے 50 ہزار سعودی ریال نکال لیے گئے ہیں۔‘
سعودی بینکس کے ترجمان طلعت ذکی حافظ نے عرب نیوز کو بتایا کہ دھوکے باز سوشل انجینیئرنگ کے ذریعے اور انسانی غلطی کا فائدہ اٹھا کر ذاتی تفصیلات تک رسائی حاصل کر کے ممکنہ سرمایہ کاروں کو لالچ دیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’یہ طریقہ دھوکے بازوں کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے متاثرین کو آہستہ آہستہ راغب کریں اور اپنے فراڈ کو مکمل کرنے کے لیے ان سے ذاتی اور بینک سے متعلقہ معلومات حاصل کریں۔ وہ یہ طریقہ بڑے پیمانے پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ سرکاری نام اورموثر افراد کے نام استعمال کر کے اپنی جعلسازی کی طرف راغب کر کے۔‘
خوش قسمتی سے فراڈی میلز، پیغامات اور ویب سائٹس پر دھوکے بازوں کی جانب سے استعمال کیے گئے کئی طریقوں کے بارے میں عوامی آگاہی بڑھ رہی ہے۔
جب ایچ الروائق نے ایک ای میل وصول کی جس میں ایک اجنبی نے ایک سعودی خیراتی فاونڈیشن میں کام کرنے کا دعوٰی کیا اور ان کو ایک لاکھ ڈالر منتقل کرنے کی پیشکش کی تو انہیں فورا شک ہو گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’مجھے اسی وقت پتہ چل گیا کہ یہ کسی قسم کا دھوکہ ہے اور میں نے جواب نہیں دیا۔ میں نے اس ای میل کو بس نظر انداز کر دیا۔‘
دھوکے بازوں کی جانب سے خطرات کے بارے میں آگاہی رکھنے والے اے ال انازی اکثر اپنے کولیگز کو ایسے افراد کے بارے میں تنبیہہ کرتے رہتے ہیں جو بغیر کسی تعلق کے کال کرتے ہیں اور کسی انویسٹمنٹ کمپنی جو بیرون ملک سرمایہ کاری کرتی ہے کا بتاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بد قسمتی سے ایک شخص نے ان کی نصیحت پر عمل نہیں کیا اور ایک سرمایہ کاری سے ماہانہ منافع کے دعوے سے دھوکہ کھا کر ہزاروں ریال گنوا بیٹھا۔ جب اس کو اندازہ ہوا کہ یہ دھوکہ ہے تو اس نے سودا منسوخ کرنے کی کوشش کی اور اپنی رقم واپس مانگی لیکن اس کو جواب نہیں ملا۔
ایک فنانشل ایڈوائزر ابراہیم عدوسری کہتے ہیں کہ دھوکے بازوں نے غیر مشکوک متاثرین کو لوٹنے کے لیے نفیس مہارت حاصل کر لی ہے اور وہ اکثرناقابل یقین حد تک قائل کر سکتے ہیں۔ جو لوگ پہلے ہی معاشی دباؤ میں ہوتے ہیں وہ بآسانی ایسے دھوکوں کا شکار بن سکتے ہیں۔ وہ جلدی امیر ہونے والی سکیموں کے ذریعے اپنے مسائل کے خاتمے کے موقعے کے لالچ میں آ جاتے ہیں اورتنبیہی اشاروں کو نظر انداز کر کے کسی سے مشورہ کرنے یا تحقیق کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
عدوسری کا کہنا تھا کہ ’متاثرین کی ایک بڑی تعداد جلدی میں ہوتی ہے اور ماہرین سے مشورہ کیے بغیر جلدی میں فیصلے کرتی ہے۔‘
’کالرز جو کہتے ہیں متاثرین ان پر یقین کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ خاص کر جب کال کرنے والی خواتین ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دھوکے باز ان طریقوں میں خواتین کو استعمال کرتے ہیں۔‘
’ایک اور وجہ متاثرین کی سرمایہ کاری کے متعلق آگاہی اورعلم کی کمی ہے۔ ان میں سے بہت سے نہیں جانتے کہ فائدے اور نقصان میں ایک تعلق ہے اور یہ تعلق ان دونوں میں براہ راست ہے۔‘
عدوسری نے کہا کہ عوام میں مالی دھوکے بازیوں کے متعلق آگاہی پھیلانا اہم ہے اور اس سلسلے میں حکام کی کوششوں کو خوش آمدید کہا۔ انہوں نے اس قسم کے دھوکوں سے آگاہی حاصل کرنے والوں سے کہا کہ وہ اس کو 330330 پر کال کر کے رپورٹ کریں۔
’میں سمجھتا ہوں کہ دھوکے کا جرم ایک فرد کی ذمہ داری ہے نہ کہ ریاست کی۔‘
کئی حکومتی اداروں بشمول ساما نے عوام سے رقم لوٹنے کے لیے پیغامات میں اپنا نام استعمال کیے جانے کے متعلق انتباہ کے لیے آگاہی مہم شروع کی ہے۔ مالی ماہرین کے مطابق آگاہی پھیلانا لوگوں کو فراڈ سے بچانے کے لیے موثر ترین طریقوں میں سے ایک ہے۔
ساما کے مطابق لوگوں سے بینک کی تفصیلات کے لیے بھیجے جانے والے جعلی پیغامات میں اضافہ ہوا ہے۔ جعلساز اکثر ایک حکومتی ادارے سے تعلق ظاہر کر کے لوگوں کو کہتے ہیں کہ ان کے ذمے رقم واجب الادا ہے اور انہیں ایک لنک پر کلک کر کے اپنی بینک کی معلومات اپڈیٹ کرنی ہیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو ان کی معلومات خطرے میں ہوتی ہیں۔
ساما کا کہنا ہے کہ بینک کی تفصیلات راز میں ہوتی ہیں اور ان کو کبھی ظاہر نہیں کیا جانا چاہیے۔
پی آئی ایف (پبلک انویسٹمنٹ فنڈ)، جو مملکت کا خودمختارفنڈ ہے، نے بھی فراڈ میں اپنا نام استعمال کیے جانے کے متعلق تنبیہہ جاری کی ہے۔ اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ادارے نے زور دیا ہے کہ وہ افراد کو براہ راست کوئی مالی یا سرمایہ کاری کے متعلق مشورہ نہیں دیتے اور عوام کو ہدایت کی کہ صرف قابل اعتماد سرکاری ذرائع سے حاصل کردہ معلومات پر ہی انحصار کریں۔
فارن ایکسچینج مارکیٹ میں غیر مجاز سکیوریٹیز کی سرگرمیوں پر قائمہ کمیٹی نے عوام کو تنبیہہ کی ہے کہ غیر لائسنس کاروبار جو جعلی سرمایہ کاری، کرنسی کی منتقلی اور فاریکس میں دوسری غیر قانونی سرگرمیوں کی پیشکش کرتے ہیں، سے محتاط رہیں۔
لیگل کنسلٹنٹ ترکی الرشید کا کہنا ہے کہ سزا یافتہ دھوکے بازوں کو متعدد متوقع سزاوؤں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ جتنا مشکل فراڈ ہو گا اتنا زیادہ جرمانہ ہو گا۔ یہ خاص کر بین الااقوامی فراڈ جس میں منی لانڈرنگ اور منشیات کی سمگلنگ شامل ہے کے بارے میں سچ ہے۔
کچھ فراڈ ثابت کرنا مشکل ہوسکتا ہے جیسے کہ بینک ٹرانسفرز اور بغیر ثبوت کے کانٹریکٹ۔
الرشید نے لوگوں سے کہا کہ کسی بھی زیرغور مالی معاہدے کے متعلق ماہرانہ رائے حاصل کریں۔ اوربڑے بڑے وعدوں یا فیس ویلیو پر اعتماد نہ کریں۔
سٹریٹیجی ایکس کے مینیجنگ پارٹنر اور سعودی فنانشل ایسویس ایشن کے بورڈ مینیجر محمد علی اصلاطین کا کہنا ہے کہ حکام کو دھوکے بازوں کے طریقوں کے متعلق عوام کو باقاعدگی سے بتانا اور آگاہی پھیلانا چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ کہ روائتی اور الیکٹرونک میڈیا کو بھی مانیٹرنگ اور فراڈ کے واقعات کو فورا رپورٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جن اداروں کا نام دھوکے باز استعمال کر رہے ہیں ان کو لوگوں کو دھوکے سے بچانے کے لیے اپنے کلائنٹس کوضرور بتانا چاہیے۔