Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’صدر صاحب سُن لیں!پاکستان افغانستان سے زیادہ اہم ملک‘

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین اور مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر مشاہد حسین سید نے نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کو پاکستان کے لیے بہتر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو بائیڈن نے 2008 میں افغان صدر حامد کرزئی پر واضح کیا تھا کہ پاکستان افغانستان سے پچاس گنا زیاہ اہم ملک ہے۔
اردو نیوز کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں سینیٹر مشاہد حسین سید نے نو منتخب امریکی صدر اور پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بائیڈن کا میں آپ کو ایک قصہ سنا دوں کہ اس کے پاکستان کے بارے میں کیا خیالات ہیں۔ 2008 کی بات ہے یہ نئے نائب صدر اور اوبامہ صدر بنے تھے۔ جو بائیڈن کابل گئے اور صدر کرزئی سے ملے۔ حامد کرزئی نے وہی شروع کر دیا لمبی شکایتیں لگانی، پاکستان نے یہ کیا پاکستان کے خلاف یہ کرو۔‘
مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ ’بائیڈن غصے کے تیز ہیں ان کو غصہ ذرا جلدی آجاتا ہے، انہوں نے کہا کہ صدر صاحب سن لو میری بات پاکستان پچاس گنا زیادہ اہم ہے افغانستان سے ہمیں ان کی ضرورت ہے جو آپ باتیں کر رہے ہیں میں اتفاق نہیں کرتا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کیری لوگر بل جس کے تحت پاکستان کو تین اعشاریہ دو ارب ڈالر کی امداد ملی تھی وہ بل، بائیڈن نے تیار کیا تھا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے دورہ امریکہ جس میں انہوں نے اوبامہ سے ملاقات کی تھی اس میں ان کے نائب صدر جو بائیڈن سے باضابطہ مذاکرات کیے تھے جس میں جو بائیڈن نے بڑا مثبت کردار ادا کیا تھا۔‘
امریکہ میں کافی عرصے سے صدور دو ٹرم کے لیے منتخب ہو رہے تھے تاہم ٹرمپ دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کیا جو بائیڈن کا انتخاب متوقع تھا؟ اس سوال کے جواب میں مشاہد حسین سید نے کہا کہ ’اگست میں دفتر خارجہ میں ایک اجلاس ہوا تھا جس کا ہم نے نیا نقشہ تیار کیا۔ اس اجلاس میں وزیر خارجہ بھی تھے اور ڈی جی آئی ایس آئی بھی تھے اور باقی پارٹیاں بھی، جب مجھے موقع ملا تو میں نے کہا کہ جو بائیڈن بطور صدر آرہے ہیں اور آپ لوگ تیاری کریں کیوں کہ انہوں نے کشمیر پر اچھا بیان دیا ہے۔‘

'جو بائیڈن کابل میں صدر کرزئی سے ملے تو افغان صدر نے پاکستان کی شکایتیں لگانا شروع کر دیں‘ (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’میرے خیال ہے یہ متوقع تھا کیونکہ کورونا، معیشت اور بلیک لائیوز میٹرز یعنی سیاہ فام اور سفید فام کی جو لڑائی تھی ان میں ٹرمپ فارغ ہو گئے تھے۔ اگر یہ چیزیں نہ ہوتیں تو ٹرمپ کا کافی اچھا چانس تھا کیونکہ وہ امیدوار بہت مضبوط تھے اور یہ بائیڈن کمزور امیدوار تھے کیونکہ حالات مجموعی طور پر خراب ہوئے اور یہ (ٹرمپ) فارغ ہو گئے۔‘
جو بائیڈن کے صدر بننے سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کیا تبدیلیاں آئیں گی؟ اس حوالے سے مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ ’ہم امید رکھ سکتے ہیں کہ بائیڈن انسانی حقوق کے اوپر اور کشمیر پر اپنی آواز اٹھائیں گے۔ مودی کی تضاد، تقسیم اور تعصب کی سیاست کی مخالفت کریں گے۔ مثبت بات یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان بڑا اہم ملک ہے پاکستان کا تعاون وہ لیں گے افغانستان کے حوالے سے لیکن ہمیں بھی اپنی کوئی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے کہ ہم افغانستان کے علاوہ بھی اپنے تعلقات استوار کریں۔‘

'کورونا، معیشت اور بلیک لائیوز میٹرز کی لڑائی میں ٹرمپ فارغ ہو گیا تھا' (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’افغانستان تو ایک مسئلہ ہے، فوجی اور سکیورٹی کا مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہیں۔ اقتصادی تعلقات ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی ایک حکمت عملی تیار کریں۔ ہمیں ایک موقع ملا ہے۔ بائیڈن صدر بنا ہے جب امریکہ کمزور اور تقسیم ہوا ہے۔ بائیڈن کو ساڑھے سات کروڑ جبکہ ٹرمپ کو سات کروڑ ووٹ ملے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ تقسیم ہے۔ امریکہ باہر کے پنگے نہیں لے گا۔‘
مشاہد حسین سید نے کہا کہ ’نائن الیون کے بعد کا دور ختم ہو چکا ہے۔ پاکستان کو اپنا موقف اجاگر کرنے کا سٹریٹجک موقع مل گیا ہے۔ زور دار طریقے سے کشمیر کی بات کریں۔ روایتی سفارت کاری سے کام نہیں چلے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ خوشی کی بات ہے کہ امریکہ کے نو منتخب صدر اور نائب صدر دونوں ماضی میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر بات کر چکے ہیں۔ جو بائیڈن مطالبہ کرچکے ہیں کہ کشمیریوں کو ان کے بنیادی حقوق ملنے چاہییں جبکہ کملا ہیرس کشمیریوں کو کہہ چکی ہیں کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔ پاکستان کو اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔‘

’واقعی عمران خان اور ٹرمپ کی بڑی مماثلت تھی۔ دونوں ٹویٹ کے ذریعے حکومت کرتے تھے' (فوٹو: اے ایف پی)

ایک اور سوال کے جواب میں لیگی رہنما نے کہا کہ ’واقعی عمران خان اور ٹرمپ کی بڑی مماثلت تھی۔ دونوں ٹویٹ کے ذریعے حکومت کرتے تھے۔ دونوں اپنے سیاسی مخالفین کو دشمن سمجھتے ہیں۔ دونوں کی کوئی ٹیم نہیں ہے اور دونوں یُو ٹرن کرتے رہے ہیں۔ دونوں کی بنیادی طور پر پارٹیز نہیں ہیں دونوں کے فینز کلب ہیں، لیکن اب ان (عمران خان) کو تعلقات نئے سرے سے استوار کرنا پڑیں گے کیونکہ یہ بائیڈن کو بالکل نہیں جانتے۔‘
افغان مفاہمتی عمل کے حوالے سے مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ ’جو بائیڈن، ٹرمپ کی 25 دسمبر تک افغانستان سے فوجیں نکالنے کی پالیسی پر جلدی عمل نہیں کریں گے۔ امریکہ کے کچھ فوجی شاید دو تین ہزار اور انٹیلی جنس کے کچھ لوگ افغانستان میں موجود رہیں گے تاکہ وہ اس خطے سے جاسوسی کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ’امریکہ کے سابق موقف کے برعکس بائیڈن کی افغانستان کے بارے میں سوچ مختلف ہے۔ کسی نے چھ ماہ پہلے ان سے پوچھا کہ اگر افغانستان میں طالبان اقتدار میں آگئے تو آپ کا کیا ردعمل ہوگا؟ جو بائیڈن نے جواب دیا کہ ’اس حوالے سے ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ جو مرضی آئے جو مرضی ہو۔‘

'کملا ہیرس کشمیریوں کو کہہ چکی ہیں کہ وہ اکیلے نہیں ہیں۔ پاکستان کو اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

اس کا مطلب ہے کہ امریکہ کا جو پرانا نظریہ تھا کہ افغانستان میں نظام نافذ کریں گے جمہوریت آئے وہ اب اس میں دلچسپی نہیں لیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سی پیک کے حوالے سے امریکہ کے موقف میں کوئی بنیادی تبدیلی تو نہیں آئے گی تاہم امید ہے کہ جو بائیڈن چین کے ساتھ تعلقات میں جو سختی آگئی تھی اس میں نرمی لانے کی کوشش کریں گے۔‘

شیئر: