Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈالر سستا، کیا دیگر اشیا بھی سستی ہوں گی؟

’آپ 19 ویں صدی کے آلات سے 21 ویں صدی کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں عام طور پر یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ جب ڈالر کی قیمت اوپر جاتی ہے تو ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے، لیکن جب ڈالر سستا ہوتا تو اشیا کی قیمتیں اپنی جگہ برقرار رہتی ہیں۔
چوہدری عمران لاہور میں گاڑیوں کی خرید و فروخت کا کام کرتے ہیں۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں روز گاڑیوں کے ریٹ متعین کرنے کی جو انوائس ملتی ہے تو اس میں کسی قسم کی کمی نہیں ہوتی۔ گاڑیوں کی قیمتوں کے تعین میں بڑی کمپنیوں اور ان کی فرنچائزز کی اجارہ داری ہے اور ریٹ بھی وہی نکالتے ہیں۔‘
انہوں  نے بتایا کہ ’ڈالر ایک روپیہ بھی اوپر جائے تو اگلے دن نئے ریٹ کی انوائس جاری ہو جاتی ہے۔ لیکن جب ڈالر کا ریٹ نیچے جاتا ہے تو اس میں کمی نہیں کی جاتی۔ میرے پاس جو گاڑی 27 لاکھ کی تھی وہ اب 43 لاکھ روپے کی ہو چکی ہے۔ اب جب ڈالر ریٹ نیچے آیا ہے تو مجھے روزانہ کسٹمرز کی کالز آتی ہیں کہ گاڑیوں کے ریٹ نیچے آئے ہیں یا نہیں کیونکہ ڈالر نیچے آ گیا ہے تو میرا جواب نفی میں ہوتا ہے۔‘

 

انہوں نے مزید کہا کہ ’15 سالوں میں ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ ڈالر نیچے آنے سے قیمتیں نیچے گئی ہوں۔ اس دوران ڈالر 85 روپے پر بھی واپس آیا لیکن گاڑیوں کی قیمتیں نہیں بدلیں۔‘
پاکستان میں شاید مہنگائی ایک ایسا معاملہ ہے جس پر حکومت اور اور اپوزیشن دونوں میں اتفاق ہے۔ جب سے تحریک انصاف نے حکومت سنبھالی ہے تو اس کے لیے سب سے بڑا چیلنج مہنگائی ہی رہا ہے۔ اسی طرح مہنگائی کو اس سطح پر لے جانے میں پاکستانی کرنسی کی قیمت کا کم ہونا اور ڈالر ریٹ اوپر جانا بھی ایک بڑا فیکٹر ہے۔ اکتوبر کے مہینے تک ڈالر کی قیمت اوپن مارکیٹ میں 168 پاکستانی روپے تک پہنچ گئی تھی۔
ڈالر کی اس اونچی اڑان نے ہر اس چیز کی قیمت کو متاثر کیا جو درآمد کی جاتی ہے۔ تاہم اب گذشتہ دوہفتوں سے ڈالر کی قیمت نیچے آنا شروع ہوئی اور جمعہ 13 نومبر کی شام تک یہ قیمت 159 روپے تک آچکی ہے۔ یعنی دو سے تین ہفتوں میں ڈالر نو روپے سستا ہوا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی بھی چیز کی قیمت نیچے نہیں آئی ہے۔
ڈالر ریٹ میں کمی کا فوری فائدہ کیوں نہیں؟
بات صرف گاڑیوں تک کی ہی بلکہ ہر وہ چیز جو ملک میں درآمد کی جاتی ہے وہ ڈالر ریٹ کے اوپر جانے سے متاثر ہوتی ہے، البتہ ریٹ نیچے جانے پر قیمتوں میں کمی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچتے۔

’ڈالر ریٹ نیچے آنے سے اشیا کی قیمتیں اس لیے نیچے نہیں آتی ہیں کیونکہ یہ ایک پیچیدہ عمل ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ڈبلیو بی ایم انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر لقمان ججہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ڈالر ریٹ نیچے آنے سے اشیا کی قیمتیں اس لیے نیچے نہیں آتی ہیں کیونکہ یہ ایک پیچیدہ عمل ہے۔ امپورٹرز نے امپورٹ کر کے بہت سارا سامان گوداموں میں سٹاک کیا ہوتا ہے، اس سے ڈیمانڈ اور سپلائی کے نظام میں توازن رہتا ہے۔ جس ریٹ سے اس نے خریدی تھی وہ کبھی بھی اس کے ریٹ میں کمی نہیں کرے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈالر ریٹ کی وجہ سے قیمتیں اوپر گئی ہیں۔ چار سو گرام نیوٹیلا 325 روپے سے 460 روپے پر چلا گیا ہے۔ ریڈ بل کا کین 225 روپے سے 270 پر چلا گیا ہے۔ ابھی میں آپ کو امپورٹر ریٹ بتا رہا ہوں اس پر 25 سے 30 فیصد ریٹیل جمع کریں تو وہ عام صارف کو ملنے والا ریٹ ہو گا۔‘
’اب جس امپورٹر نے یہ سٹاک پرانے ڈالر ریٹ پر خریدا ہوا ہے وہ کیسے سستا بیچ سکتا ہے۔ اور اوپر سے یہ بھی گارنٹی نہ ہو کہ دو دن بعد ڈالر کا ریٹ پھر نہ اوپر چلا جائے۔ تو یہ غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے بھی قیمتوں نیچے نہیں آ رہیں۔‘
پاکستانی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے ڈاکٹر قیس اسلم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کا بوسیدہ نظام اس کی وجہ ہے کہ اصل مہنگائی سے بھی زیادہ مہنگائی رہتی ہے۔
’میں تو اس کو ایسے ہی دیکھتا ہوں کہ آپ 19 ویں صدی کے آلات سے 21 ویں صدی کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ پاکستان میں صارفین جب تک خود طلب و رسد کے نظام میں نگرانی کے حصہ دار نہیں ہوں گے ایسا ہی ہوتا رہے گا۔‘

’ ایف بی آر اور دیگر محکموں کا کام ہے کہ مہنگائی کے حوالے سے کڑی نگرانی کریں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ’ڈالر اوپر جانے سے فوری چیزیں مہنگی ہو جاتی ہیں اور نیچے آنے پر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ایف بی آر اور دیگر محکموں کا کام ہے کہ کڑی نگرانی کریں۔ جب ہر چیز جو درآمد ہوتی ہے اس کا مفصل ریکارڈ موجود ہے۔ آگے اس کے بکنے کا ریکارڈ موجود ہے تو آسانی سے مصنوعی مہنگائی سے عوام کو بچایا جا سکتا ہے۔ یعنی جو فائدہ ڈالر اوپر جانے سے امپورٹر کو بیٹھے بیٹھے ہوا نیچے آنے پر اسی تناسب سے اسے ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر قیس نے بتایا کہ ’ایک پیچیدہ بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کی اپنی صنعت بھی کافی زیادہ درآمدی خام مال پر منحصر ہے۔ کیمیکلز انڈسٹری،  ادویات اور ہر طرح کی مشینوں کے پرزہ جات وغیرہ یعنی مقامی سطح پر بھی بننے والی چیزیں ایک سائیکل میں کسی نہ کسی حد تک ڈالر ریٹ کے اتار چڑھاؤ سے منسلک ہیں۔‘
کیا ڈالر مستحکم رہے گا؟
یہ خود ایک ملین ڈالر کا سوال ہے کہ پاکستان کے موجودہ معاشی نظام میں کیا ڈالر جو اب 159 پر آ گیا ہے، مزید نیچے جائے گا یا پھر کس حد تک دوبارہ مہنگا ہونے کے چانسز ہیں؟
 اس حوالے سے اردو نیوز نے ایکسچینجز کمپنیز ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری نظر میں اب ڈالر مزید اوپر نہیں جائے گا بلکہ 155 روپے کی اپنی اصل قیمت پر آ کر رک جائے گا۔ اور یہ بات کرنے کی میرے پاس ٹھوس وجوہات ہیں۔ کورونا کے دور سے پہلے قیمت 155 تھی۔ میں جنوری فروری کی بات کر رہا ہوں۔ کورونا آنے سے پاکستان میں سے انویسٹرز نے ساڑھے تین ارب ڈالر اٹھا لیے جو کہ انویسٹمنٹ بانڈز کی مد میں تھے جس کی وجہ سے مصنوعی قلت پیدا ہوئی اور ڈالر 170 روپے کو چھونے لگا۔‘

ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم ڈالر کی قیمت میں کمی کو حوصلہ افزا انداز میں نہیں دیکھتے (فوٹو: اے ایف پی)

’اصل میں ان وہ ساڑھے تین ارب ڈالر پورا کرنے کے لیے ڈالر کی ڈیمانڈ اتنی زیادہ تھی کہ ریٹ اوپر چلا گیا۔ اب وہ عمل مکمل ہو چکا ہے۔ اب ڈالر کی ڈیمانڈ ختم ہو گئی ہے۔ تو یہ واپس اپنی اصل قیمت پر آ رہا ہے۔ کیونکہ 155 سے اوپر جتنا بھی ریٹ بڑھا وہ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے تھا ہی نہیں۔‘
ملک بوستان کے مطابق حکومت کے حالیہ اقدامات جس میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ اور کرنٹ اکاونٹ خسارے میں کمی سے بھی ڈالر نیچے آیا ہے۔
’جب آپ نے لوگوں کو بینک سے آزاد کر دیا اور سہولت دے دی تو وہ آسانی سے ڈالر ملک میں بھیج رہے ہیں۔ اسی طرح اس پالیسی میں آپ نے گارنٹی بھی دے دی کہ جتنے ڈالر آپ بھیج رہے ہیں وہ آپ  بغیر کسی این او سی کے واپس بھی لے جا سکتے ہیں تو اس سے بھی لوگوں کا اعتماد بڑھا ہے۔ تو میرے خیال میں جو مارکیٹ کی اس وقت صورت حال ہے اب ڈالر اوپر نہیں جائے گا۔ اگر خدانخواستہ کوئی ایمرجنسی یا لا اینڈ آرڈر کی صورت حال پیدا نہیں ہوتی تو۔‘
تاہم ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم ڈالر کی قیمت میں کمی کو حوصلہ افزا انداز میں نہیں دیکھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’حکومت نے ڈالر کی قیمت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بڑھائی تھی اور یہ ایک نظریہ ہے کہ آپ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو قائل کریں کہ کم ڈالر بھیج کے یہاں زیادہ روپے حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسی سکیمیں اس وقت کامیاب ہوتی ہیں جب آپ اس رقم سے پیداواری سکت بڑھاتے ہیں اور برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے۔‘

تمام ماہرین متفق ہیں کہ ڈالر کی قیمت میں کمی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچتے (فوٹو: اے ایف پی)

’لیکن یہ جو ڈالر لوگ باہر سے بھیجتے ہیں اس کی سب سے آسان انویسٹمنٹ پراپرٹی میں ہوتی ہے جس سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا اس کو انگریزی میں پورٹ فولیو انویسٹ منٹ کہا جاتا ہے۔ اوپر سے آپ کنسٹرکشن انڈسٹری کی حوصلہ افزائی کے لیے پالیسی جاری کر دیتے ہیں جو کہ آپ کی ڈالر پالیسی کے بالکل الٹ نتائج رکھتی ہے یہی تضاد اصل میں معیشت کو آگے نہیں بڑھنے دیتا۔‘
ایک بات پر تمام ماہرین اور کاروباری حضرات متفق ہیں کہ ڈالر اوپر جانے سے مہنگائی بڑھی ہے یا بڑھتی ہے لیکن نیچے آنے سے اس کے فوائد سے عوام محروم رہتے ہیں اور معاشی نظام کو مکمل تبدیل کیے جانے تک یہ صورت حال ایسے ہی رہے گی۔

شیئر: