پاکستان کی وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کو معاشی بحران سے نکال کر بحالی کی سمت پر گامزن کر چکی ہے۔
وزیر اطلاعات شبلی فراز نے منگل کو ہونے والے کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریف کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی کے علاوہ ملکی معیشت کے تمام اشاریے مثبت ہیں۔
اس صورت حال میں ہر شخص یہ سوچنے پر مجبور ہو کر رہ گیا ہے کہ اگر معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے تو اس کا فائدہ عام آدمی کو کیوں نہیں پہنچ رہا؟ آخر ہر مہینے اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں کیوں زیادہ ہو جاتی ہیں؟
مزید پڑھیں
-
پاکستان میں دوائیوں کی قیمتیں کم کیوں نہ ہو سکیں؟Node ID: 415321
-
پی ٹی آئی حکومت میں کتنی مہنگائی؟Node ID: 432301
-
پاکستان میں مہنگائی میں کتنا اضافہ ہوا؟Node ID: 496351
معاشرے میں عوام کے مہنگائی کے شکوے اور سوشل میڈیا پر ہونے والے تبصروں کو ایک طرف رکھ بھی دیا جائے تو سرکاری اعداد و شمار خود ثابت کر رہے ہیں کہ ٹماٹر عوام کا منہ لال اور چینی زبان کا ذائقہ کڑوا کر رہی ہے۔
بیرون ملک سے گندم منگوانے کے باوجود آٹا عوام کی پہنچ سے دور ہوتا جا رہا ہے۔
وفاقی ادارہ شماریات نے مہنگائی سےمتعلق تازہ اعداد و شمار کے مطابق ستمبر 2019 کے مقابلے میں مہنگائی کی شرح میں 9.04 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق ایک ماہ میں ٹماٹر 44 فیصد، سبزیاں 30، مرغی کا گوشت 18 اور پیاز 14 فیصد مہنگے ہوئے جبکہ پھل 6 فیصد مہنگے ہوئے ہیں۔
جولائی سے ستمبر تک آلو کی قیمت میں 76 فیصد اور ادرک میں 54 فیصد اضافہ ہوا جبکہ چینی 22.5 فیصد مہنگی ہوئی ہے۔ دال مونگ کی اوسط قیمت 243 روپے 52 پیسےفی کلو تک جا پہنچی ہے۔
حال ہی میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو تعینات ہونے والے اور سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کہتے ہیں کہ معاشی اشاریوں کے باوجود اشیاء کا مہنگے داموں فروخت ہونا ایک بڑا مسئلہ ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے مختصر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اس کی وجہ سپلائی معاملات میں کچھ انتظامی مسائل ہیں جن کو ٹھیک کرنا چاہیے۔‘
ماہر معاشیات ڈاکٹر ساجد امین کے مطابق مہنگائی کا تعلق گورنینس کے نظام میں خامیوں سے ہے۔
ان کے مطابق کسی بھی حکومت کی کارکردگی ماپنے کے تین پیمانے ہیں جن میں پہلا پیمانہ یہ ہے کہ اس نے جو وعدے کیے تھے وہ پورے ہو رہے ہیں یا نہیں؟ دوسرا پیمانہ یہ ہے کہ معاشی اشاریے کیا ہیں؟ اور تیسرا پیمانہ بے روزگاری، عوامی معیار زندگی اور مہنگائی کا اندازہ لگاتا ہے۔
ڈاکٹر ساجد امین نے کہا کہ ’حقائق کو دیکھا جائے تو موجودہ حکومت اپنے انتخابی وعدوں سے پھر گئی ہے اور ان پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہی ہے۔ جن اشاریوں کی بنیاد پر حکومت معاشی بہتری کے دعوے کر رہی ہے، وہ مصنوعی اور ناپائیدار ہیں جبکہ بے روزگاری اور مہنگائی میں بھی بھی اضافہ ہوا ہے۔‘
ڈاکٹر ساجد امین نے کہا کہ ’موجودہ مہنگائی کا تعلق طلب و رسد سے نہیں بلکہ یہ کمزور گورنینس کی وجہ سے ہے۔ موجودہ معیشت کے ساتھ اس میں بہتری لائی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے گورنینس کا نظام بہتر کرنا ہوگا۔‘
ایک اور ماہر معاشیات ڈاکٹر صبور غیور اگرچہ حکومت کے اس دعوی کو درست مانتے ہیں کہ معیشت آئی سی یو سے باہر آ رہی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ ’مہنگائی جیسے مسائل پر قابو پانے کے لیے مضبوط حکومت کی ضرورت ہے۔ بیساکھیوں کے سہارے پر چلنے والی حکومت مافیاز کے خلاف کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔‘
اردو نیوز سے گفتو کرتے ہوئے ڈاکٹر صبور نے کہا کہ ’جن اقدامات کی وجہ سے معاشی اشاریے بہتر ہوئے ہیں ان اقدامات کے ساتھ ساتھ مافیاز کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جن کے خلاف کاروائی کی جانی ہوتی ہے وہ ہر حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں اور حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے حکومت مہنگائی جیسے مسئلے پر قابو پانے میں ناکام ہے۔‘
باخبر رہیں، اردو نیوز کو ٹوئٹر پر فالو کریں