سائنسدانوں کے خیال میں کچرے کی نقل و حرکت کا تعاقب کرنے اور ہواؤں اور پانی کے بہاؤ کا جائزہ لینے سے سمندروں میں گندگی کے مسئلے سے نمٹا جا سکتا ہے۔
انڈونیشیا کے وزارت برائے سمندری امور اور فرانس کی خلائی ایجنسی کے ماتحت ادارے سی ایل ایس کے اشتراک سے سمندروں کی صفائی کا منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔
منصوبے کے تحت انڈونیشیا میں دریاؤں کے کناروں پر سیٹلائٹ بیکن نصب کیے ہیں جن کے ذریعے کچرے کی نقل و حرکت کے حوالے سے معلومات حاصل کی جاتی ہیں کہ یہ سمندروں میں کیسے داخل ہوتا ہے۔
یہ تمام ڈیٹا بیکن میں اکھٹا ہوتا رہتا ہے جہاں سے ہر گھنٹے کے بعد سیٹلائٹ کو ٹرانسفر ہوتا ہے۔ فرانسیسی اور انڈونیشیا کے سائنسدانوں پر مشتمل ٹیمیں اس ڈیٹا کا جائزہ لے رہی ہیں۔
سی ایل ایس کے مطابق بیکن سے ملنے والے ڈیٹا کی بنیاد پر سمندر سے کچرا اکھٹا کرنا آسان ہو گیا ہے۔ آئندہ سال کے آخر تک سمندروں میں 70 سیٹلائٹ بیکن ریلیز کیے جائیں گے تاکہ کچرے کا سراغ لگایا جا سکے۔
حکام کو کچرے بالخصوص پلاسٹک کی نقل و حرکت معلوم ہونے کے بعد سمندروں کی صفائی کے عمل کو مزید مؤثر بنانے کی امید کی ہے۔
پلاسٹک کی موجودگی صرف انسانی صحت کے لیے ہی نہیں بلکہ سمندری حیات اور پرندوں کے لیے بھی خطرہ سمجھی جاتی ہے۔
دو سال قبل انڈونیشیا کے ساحل پر ویل مچھلی مردہ حالت میں پائی گئی تھی جس کے پیٹ سے 115 پلاسٹک کپ اور 25 پلاسٹک بیگ نکلے تھے۔
امریکی ادارہ برائے سمندری تحفظ کے مطابق دنیا بھر کے سمندروں میں 150 ملین ٹن پلاسٹک بھرا ہوا ہے۔