مینار پاکستان ایسا تاریخی مقام ہے کہ اس کے لیے شاید پاکستان کے قیام سے پہلے برصغیر کی تاریخ بھی دیکھنا بے جا نہ ہوگا(فوٹو:سوشل میڈیا)
پاکستان میں سیاست ایک دفعہ پھر اس نہج پر ہے کہ جب لاہور میں واقع مینار پاکستان پر جلسہ حکومت اور اپوزیشن کے لئے انا کا مسئلہ بن چکا ہے۔ پاکستان کی حزب اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل اتحاد پی ڈی ایم نے 13دسمبر کو مینار پاکستان گراؤنڈ پر جلسے کا اعلان کررکھا ہے جو اپوزیشن کی اس تحریک کا پانچواں بڑا جلسہ ہو گا۔
مینار پاکستان گراؤنڈ پر جلسہ انا کا مسئلہ کیوں ہے یہ ایک پیچیدہ سوال ہے۔
حکومت اسے کورونا ایس او پیز کے غلاف میں چھپا کر روکنا چاہا رہی ہے تو اپوزیشن اسے اپنی سیاسی بقا کی جنگ سمجھ رہی ہے جسے سمجھنے کے لیے پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔
مینار پاکستان ایسا تاریخی مقام ہے کہ اس کے لیے شاید پاکستان کے قیام سے پہلے برصغیر کی تاریخ بھی دیکھنا بے جا نہ ہوگا۔
پاکستان کے معروف تجزیہ کار اور روزنامہ پاکستان کے ایڈیڑ ان چیف مجیب الرحمان شامی کے مطابق لاہور کا یہ کھلا میدان اس وقت تاریخی حیثیت اختیار کر گیا تھا جب 1940 میں یہاں آل انڈیا مسلم لیگ کا جلسہ ہوا تھا۔ ’اس وقت اس کا نام منٹو پارک تھا اور یہ سعادت حسن منٹو کے نام کی مناسبت سے قطعا نہیں تھا۔ اس جلسے میں مشہور زمانہ قرارداد پاکستان پیش کی گئی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس ملک کا باقاعدہ تصور بھی اسی جلسے میں سامنے آیا۔‘
پاکستان کی جغرافیائی اور تاریخی حیثیت کو سمجھنے والے ادیب اور دانشور مدثر بشیر بتاتے ہیں کہ لاہور کا یہ کھلا میدان کسی دور میں ’دریائے راوی کا پیٹ‘ تھا۔ ’یہاں سے دریائے راوی بہتا تھا اور یہ علاقہ بالکل شاہی قلعے کے سامنے کا حصہ تھا۔ ویسے تو ابھی بھی ہے لیکن دریا اب یہاں سے بہت پیچھے ہٹ چکا ہے۔‘
مدثر بشیر کے بقول ’یہ صدیوں پرانی بات ہے لیکن اس وقت یہ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ دریائے راوی کا سینہ چاک کر کے نکلنے والا یہ میدان مستقبل میں نہ صرف ایک ملک کے قیام میں اپنا حصہ ڈالے گا بلکہ اس ملک کی آئندہ کی سیاسی تاریخ پر اثر انداز ہو گا۔‘
شاید یہی معاملہ ہے کہ مینار پاکستان کے تاریخی گروانڈ میں ایک دفعہ پھر سیاسی بساط بچھنے جا رہی ہے اور دن ہے تیرہ دسمبر کا۔
مجیب الرحمان شامی بتاتے ہیں کہ ’اگر 1940 کے تاریخی جلسے کے بعد آپ دیکھیں تو 1970 میں پہلا بڑا سیاسی اجتماع ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی داغ بیل ڈالی جا چکی تھی اور بھٹو نے پنجاب کے عوام سے اس میدان کو بھر دیا تھا اوراس کا سیاسی فائدہ پھر آپ کو انتخابات میں نظر آتا ہے کہ ایک نوزائیدہ جماعت پاکستان کا انتخاب جیت گئی اور بھٹو وزیر اعظم بن گئے۔‘
پاکستانی سیاست میں مینارپاکستان کے اس گراؤنڈ نے دوسری بار سیاسی شو اس وقت دیکھا جب محترمہ بینظیر بھٹو انیس چھیاسی میں وطن واپس آئی تھیں۔
مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں ’یہ ایک فقید المثال استقبال تھا اور بی بی نے یہاں مینار پاکستان پر جلسہ کیا تھا اور ایک خلقت تھی جو اُمڈ آئی تھی، بعد میں ثابت ہوا کہ پنجاب نے اپنا فیصلہ دے دیا تھا اور بی بی بعد میں ملک کی وزیر اعظم بھی بنیں۔‘
ویسے تو لاہور پاکستان میں سیاسی گہما گہمی کا ہمیشہ سے ہی مرکز رہا ہے اور سیاسی جماعتیں یہاں متحرک رہی ہیں لیکن مینار پاکستان کے اس میدان کو بھرنے کا خیال شاذو نادر ہی آیا ہے۔ البتہ لاہور کا موچی دروازہ اور ناصر باغ ایسے مقام رہے ہیں جو سیاسی جماعتوں کے اس لیے بھی محبوب رہے ہیں کہ ان کو بھرنا اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔
مجیب الرحمان شامی نے بتایا کہ ’1990 میں نواز شریف نے بھی ایک دفعہ مینار پاکستان پر جلسہ کیا تھا جو کافی عرصے تک یاد رکھا گیا تھا۔‘
حالیہ سیاسی تاریخ میں عمران خان کے 2011 کے جلسے نے ایک دفعہ پھر مینار پاکستان کے گراؤنڈ کو بھرنے کی سیاسی حیثیت کو اجاگر کر دیا۔ اس جلسے نے ایک دفعہ پھر ملکی سیاست کو بدل کر رکھ دیا۔
یہی وجہ ہے کہ اب بھی تحریک انصاف بھلے 13 دسمبر کے جلسے کے خلاف ہے لیکن ان کے رہنما یہ چیلنج کرتے بھی نظر آرہے ہیں کہ ’اپوزیشن مینار پاکستان کے گروانڈ کو بھر کے دکھائے۔‘
پی ڈی ایم نے اپنے پانچویں بڑے جلسے کے لیے مینار پاکستان کے میدان کو منتخب کیا ہے اور اسے بھرنے کے لیے مسلم لیگ ن متحرک ہے کیونکہ اس جلسے کی میزبانی اسی جماعت کے پاس ہے۔
مریم نواز دن رات لاہوریوں کو اس جلسے میں شرکت کی دعوت دیتی نظر آرہی ہیں اور ابھی سے سب متجسس ہیں کہ اس جلسے میں شرکت کرنے والے افراد کی تعداد کتنی ہو گی۔
سیاسی اجتماعات کے علاوہ مینار پاکستان کا یہ گراؤنڈ ہمیشہ سے مذہبی جماعتوں کو محبوب رہا ہے اور تقریباً ہر سال یہاں بڑے بڑے مذہبی اجتماع بھی منعقد ہوتے ہیں۔
طاہرالقادری کے مذہبی اجتماعات نے تو باقاعدہ سیاسی حیثیت بھی اختیار کر لی تھی۔
مبصرین اس نقطے پر متفق ہیں کہ اگر اس بار اپوزیشن اس میدان کو لوگوں سے بھر لیتی ہے تو اس حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ضرور بجے گی۔