Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’استعفے ہمارا ایٹم بم، استعمال پی ڈی ایم مل کر کرے گی‘

پی ڈی ایم نے حکومت کو مستعفی ہونے کے لیے 31 جنوری کی ڈیڈلائن دی ہے۔ فوٹو اے ایف پی
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ’استعفے ہمارا ایٹم بم ہیں اور اس کا استعمال  پی ڈی ایم مل کر کرے گی۔‘
منگل کو لاہور کے کوٹ لکھپت جیل میں مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت ملک چلانے کی اہل نہیں، وزیر اعظم کو کرسی تو چھوڑنا پڑے گی۔
جب لاہور جلسے میں ان کے ’ڈائیلاگ کا وقت گزر چکا‘ کا حوالہ دے کر سوال پوچھا گیا کہ سیاست میں گفتگو تو چلتی رہتی ہے، تو بلاول نے جواب دیا  ’ڈائیلاگ کہاں ہو سکتا ہے جب وزیر اعظم کٹھ پتلی ہے، سپیکر کٹھ پتلی ہے اور وزیر اعلیٰ بھی کٹھ پتلی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکمرانوں میں سچ سننے کا حوصلہ نہیں۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے استعفوں پر یکسوئی نہ ہونے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر بلاول بھٹو نے ایک بار پھر دہرایا کہ پی ڈی ایم ایک پیج اور سٹیج پر ہے۔
شہباز شریف سے ملاقات پر مریم نواز سوچ میں مبتلا ہیں‘ جب سوال میں حکومتی وزیر کے اس جملے کا حوالہ دیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ شہباز شریف سے تعزیت نہیں کر سکے تھے اور اسی لیے ملے ہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ دکھ کے وقت میں مخالف کا ساتھ دینا بھی ہماری روایت میں ہے۔
بلاول نے کہا کہ اس پر حکومت جس قسم کی سیاست کر رہی ہے ہم اس کے مذمت کرتے ہیں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اگر ملک کو بحرانوں سے نکالنا ہے تو وزیر اعظم کو استعفیٰ دینا پڑے گا۔
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج پاکستان کی گروتھ ریٹ افغانستان سے بھی نیچے ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ پاکستان کی قسمت ہے کہ یہ ترقی نہ کرے؟ اور خود ہی جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا مستقبل روشن ہے مگر یہاں میں قیادت کا فقدان ہے۔

’استعفوں پر اتفاق موجود ہے اور نہ لانگ مارچ پر یکسوئی‘

دوسری جانب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن جماعتوں کے حکومت مخالف اتحاد پی ڈیم ایم کے لاہور جلسے کو بے معنی سرگرمی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان میں نہ تو استعفوں پر اتفاق ہے اور نہ ہی لانگ مارچ  کے حوالے سے یکسوئی ہے۔ 
منگل کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کا لاہور میں جلسہ انقلاب کی ایک غیر ذمہ دارانہ کوشش تھی، جبکہ لاہور کے شہری جلسے سے لاتعلق رہے تھے۔
’اگر پی ڈی ایم جلسے سے قبل عوام کو شرکت کے لیے تیار کر لیتی تو اسے مایوسی نہ ہوتی۔‘
انہوں نے پیپلز پارٹی کے حوالے سے کہا کہ ان کی فیصلہ کن قوتیں جلسے میں تھیں اور نہ ہی اجلاسوں میں۔
’پیپلز پارٹی میں فیصلے آصف علی زرداری کرتے ہیں، بلاول بھٹو نہیں۔‘

 حکومت نے پی ڈی ایم کے لاہور جلسے کو ’ناکام کوشش‘ قرار دیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

وزیر خارجہ نے پی ڈی ایم کے مستعفی ہونے کے ڈیڈلائین کے حوالے سے کہا کہ یہ ایک غیرجمہوری مطالبہ ہے۔ 
یاد رہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے حکومت کو 31 جنوری تک مستعفی ہونے کی ڈیڈلائن سے رکھی ہے۔
’ایک کروڑ 70 لاکھ ووٹ لینے والی پارٹی آپ کے کہنے پر کیوں استعفیٰ دے۔‘
شاہ محمود قریشی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت پی ڈی ایم کے الٹی میٹم کو مسترد کرتے ہیں، وزیر اعظم مستعفی نہیں ہوں گے۔
انہوں نے پی ڈی ایم کی جانب سے استعفے دیے جانے کے حوالے سے کہا کہ اگر وہ واقعی سنجیدہ ہیں تو 31 دسمبر تک استعفے سپیکر کے پاس پہنچنے چاہئیں۔
’قیادتوں کے پاس استعفے پہنچانا تو دکھاوا ہے۔‘
شاہ محمود قریشی کے مطابق مسلم لیگ ن میں دو دھڑے  موجود ہیں، ایک سوچ شہباز شریف کی ہے اور دوسری مریم نواز کی، دونوں سوچوں میں بہت خلا ہے۔
وزیر خارجہ کے بقول لاہور سیاست کا مرکز اور سیاست کی نبض ہے، جس نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام نے پی ڈی ایم کا بیانیہ مسترد کر دیا ہے اور اس کی قیادت اپنی ناکامیاں میڈیا چینلز پر ڈال رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میڈیا آئینہ ہے اور جب اس میں آپ کو اپنا چہرہ ٹھیک نہیں لگتا تو پھر آپ اپنا غم وغصہ بھی اسی پر نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔

شیئر: