منتظمین کے مطابق بڑی تعداد میں کرسیاں لوگ جلسے کے اختتام پر اپنے ساتھ بھی لے گئے۔ فوٹو: سوشل میڈیا
پی ڈی ایم کا فلیگ شپ جلسہ تو گزر گیا لیکن اس کے آفٹر شاکس دونوں طرف جاری ہیں۔ حکومت اس کو ناکام ثابت کرنے پر بضد ہے تو اپوزیشن سمجھتی ہے کہ وہ اہداف حاصل کر چکی ہے۔
اگر ملک کا وزیراعظم ٹی وی پر خطاب میں کہے کہ ’ہم اپوزیشن کے جلسے کو کرسیاں، ٹینٹ اور لاوڈ سپیکر مہیا کرنے والوں کو پکڑیں گے‘ تو یہ ایک ملین ڈالر سوال ہے کہ اپوزیشن نے پھر بھی جلسہ کے انتظامات کیسے کر لیے، کرسیاں بھی لگ گئیں اور سپیکر بھی آ گئے۔
خیال رہے کہ حکومت نے اپوزیشن کو اس جلسے کی باضابطہ اجازت نہیں دی تھی اور جلسے سے ایک روز پہلے لیگی کارکنوں نے مینار پاکستان کے گراؤنڈ کے گیٹ کا تالا توڑ کر انتظامات شروع کیے۔ جلسے میں لائی جانے والی ابتدائی کرسیاں کافی قیمتی معلوم ہو رہی تھیں۔ سٹیل کی بنی ان کرسیوں کو آرام دہ بنانے کے لیے ان پر فوم بھی لگا ہوا تھا۔
امجد بھٹی جو جلسہ گاہ کے انتظامی امورانجام دینے والی ٹیم کے رکن تھے انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمیں پتا تھا کہ حکومت نے ٹینٹ سروس والوں کو ڈرایا دھمکایا، تمام ایس ایچ اوز کو کہا گیا تھا کہ ان کے علاقوں میں جتنے بھی ٹینٹ سروس والے ہیں انہیں اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ کسی بھی طریقے سے جلسے کے لیے کرسیاں مہیا نہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس کے متبادل انتظام کر رکھے تھے۔ چونکہ یہ حلقہ بلال یاسین کا ہے اور ان کے یہاں تین شادی ہال ہیں، سب سے پہلے وہاں سے کرسیاں یہاں لائی گئیں۔ اسی طرح دیگر لیگی رہنماؤں یا کارکنوں میں سے کسی کا بھی شادی ہال تھا تو وہاں سے بھی منگوا لی گئیں۔‘
مسلم لیگ ن کے ایک اور کارکن آصف علی نے بتایا کہ ’اس کے باوجود کہ شادی ہالوں سے اچھی خاصی کرسیاں اکھٹی کر لی گئی تھی پھر بھی گوجرانوالہ کی ایک کمپنی سے پلاسٹک کی کرسیاں جلسے کے لیے خریدی بھی گئیں جو کہ جلسے سے ایک روز قبل مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں پہنچائی گئیں۔ یہ اتنی مضبوط کرسیاں نہیں تھیں اور ان کی تعداد پانچ ہزار کے لگ بھگ تھی۔ جلسے کے اختتام پر جب ہم نے سامان سنبھالا تو اسی فیصد کرسیاں ٹوٹ چکی تھیں کیونکہ جلسے کے دوران لوگ ان پر کھڑے ہوتے رہے۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ بڑی تعداد میں کرسیاں لوگ جلسے کے اختتام پر اپنے ساتھ بھی لے گئے۔ آصف کے بقول ایک کرسی کی قیمت چارسو روپے تھی۔ دوسرے لفظوں میں ن لیگ کو یہ جلسہ جیب پر بھی بھاری پڑا۔
مسلم لیگ ن نے یہ انتظامات مقدمات سے بچنے کے لیے کیے تھے لیکن دوسری جانب مسلم لیگ ن کی قیادت پر دو مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ ان میں ایک تالہ توڑ کر جلسے کے انتظامات کرنے اور دوسرا کورونا ایس اوپیز کی خلاف ورزی پر۔ دوسرے پرچے میں مریم نواز سمیت تمام پی ڈی ایم قیادت کو نامزد کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ حکومت نے مقامی ساؤنڈ سسٹم کمپنی کے مالک ڈی جے بٹ کو جلسے سے دوروز قبل گرفتار کر لیا تھا اور ان پر اس الزام کے تحت مقدمہ بنایا گیا کہ وہ اپنے آفس میں اونچی آواز میں گانے سن رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ن لیگ نے آخری لمحات میں اسلام آباد کی ایک کمپنی سے معاہدہ کر لیا جس کے بعد جلسے میں ساؤنڈ سسٹم کے انتظامات انہوں نے کیے۔
ن لیگ نے جس طرح عارضی طریقے سے سستی پلاسٹک کی کرسیوں کا انتظام کیا یعنی پیسوں سے خرید کر کرسیاں لائی گئیں یہ روایت نئی نہیں ہے اس سے پہلے اس کا آغاز تحریک انصاف کے جلسوں میں ہوا تھا۔
سنہ 2012 میں قصور میں ہونے والے جلسے میں ہزاروں پلاسٹک کی کرسیاں خرید کر رکھی گئیں جن کو جلسے کے شرکا اٹھا کر لے گئے تھے اور تمام مقامی ٹی وی چینلز نے یہ مناظر کئی گھنٹوں تک براہ راست نشر کیے تھے۔