Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مارٹن کرو: جن کے آگے بولروں کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہو پاتی

وسیم اکرم اور وقار یونس ریورس سوئنگ کے خلاف مارٹن کرو کو بہترین بلے باز گردانتے ہیں (فوٹو:سوشل میڈیا)
90 کی دہائی کے شروع میں وسیم اکرم اور وقار یونس نے ریورس سوئنگ سے بلے بازوں کا کھیلنا دُوبھرکردیا تھا البتہ اس زمانے میں ایک بلے باز ایسا ضرور تھا جس نے بڑی مہارت سے اس مہلک ہتھیار کا خم ٹھونک کر مقابلہ کیا۔
یہ نیوزی لینڈ کے عظیم بلے باز مارٹن کرو تھے۔ خوبی وہ جس کا اعتراف حریف بھی کریں۔ وسیم اکرم اور وقار یونس ریورس سوئنگ کے خلاف مارٹن کرو کو بہترین بلے باز گردانتے ہیں۔
وسیم اکرم نے آٹھ سال پہلے کرکٹ کی معروف ویب سائٹ ’کرک انفو‘ کو بتایا تھا کہ 1992 میں مارٹن کروکے علاوہ کوئی بلے باز ریورس سوئنگ کھیلنا نہیں جانتا تھا۔
انھوں نے ایک دفعہ کرو سے پوچھا کہ وہ ریورس سوئنگ کا کامیابی سے مقابلہ کیسے کر پائے؟ تو انھوں نے بتایا کہ وہ ’ٹو ڈبلیوز‘ کی ہر گیند سیدھے بلے سے ان سوئنگ سمجھ کر کھیلتے، ان کے ذہن میں ہوتا کہ گیند آﺅٹ سوئنگ ہوگی تو وہ اس کا پیچھا نہیں کریں گے، ڈرائیو کرنے سے اجتناب پر گیند مس ہی ہوگی۔
پاکستانی بولروں کو وہ فرنٹ فٹ پر کھیلتے کیونکہ ان کے خیال میں بیک فٹ پرانھیں کھیلنا ممکن نہ تھا۔
وسیم اکرم کا کہنا ہے کہ انھوں نے کیریئر میں جتنے بھی عظیم بلے باز دیکھے وہ سب گیند کو لیٹ اور فرنٹ فٹ پر کھیلتے تھے۔ مارٹن کرو کو بھی وہ ایسے ہی بلے بازوں میں شمار کرتے ہیں۔
ریورس سوئنگ سے کامیابی کے ساتھ نمٹنے کی ایک وجہ مارٹن کرو کے نزدیک ان کا کلاسیکی سٹانس تھا جس سے انھیں معلوم ہوتا کہ ان کی آف سٹمپ کدھر ہے، اس لیے باہر جاتی گیندوں کے بجائے  پیڈز اور وکٹوں کی طرف رخ کرتی ان سوئنگ پر وہ اپنی توجہ مرکوز کرتے۔
مارٹن کرو نے انٹرویو میں بتایا کہ 1990 میں دورہ پاکستان سے پہلے وہ ریورس سوئنگ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔

ریورس سوئنگ سے کامیابی کے ساتھ نمٹنے کی ایک وجہ مارٹن کرو کے نزدیک ان کا کلاسیکی سٹانس تھا (فوٹو:سوشل میڈیا)

1990 میں نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم مارٹن کرو کی قیادت میں پاکستان آئی تو وقار یونس نے ان کی بیٹنگ لائن اپ کو تہس نہس کردیا۔ تین ٹیسٹ میچوں میں 29 وکٹیں حاصل کیں۔
وسیم اکرم نے دو ٹیسٹ میچوں میں دس کھلاڑی آؤٹ کیے (ان فٹ ہونے کی وجہ سے وہ تیسرا ٹیسٹ نہیں کھیل سکے) مہمان ٹیم کلین سویپ کی خفت سے دوچار ہوئی۔ سیریز کے پہلے دو ٹیسٹ میچوں کی ایک ایک اننگز میں کرو ناٹ آﺅٹ رہے۔
لاہور ٹیسٹ میں سنچری بنائی، کوئی بولر انھیں شکار نہ کرسکا۔ اس اننگز کو ریورس سوئنگ کے خلاف مزاحمت کی بہترین مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ 108رنز کی اننگز میں وہ تقریباً دس گھنٹے وسیم اور وقار کے سامنے ڈٹے رہے۔
نیوزی لینڈ کی طرف سے سیریز میں یہ واحد سنچری تھی (1989 میں انھوں نے ویلینگٹن ٹیسٹ میں پاکستان کے خلاف 174رنز کی اننگز کھیلی تھی) مارٹن کرو اس ٹیسٹ سریز میں نیوزی لینڈ کی طرف سے مین آف دی سیریز قرار پائے۔  
مارٹن کرو نے ٹیسٹ ہی نہیں ون ڈے میں بھی پاکستان کے خلاف عمدہ کارکردگی دکھائی جس کی سب سے اچھی  مثال 91 رنز کی وہ اننگز ہے جو انھوں نے 1992ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں کھیلی۔

1990 میں نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم مارٹن کرو کی قیادت میں پاکستان آئی تو  وقار یونس نے ان کی بیٹنگ لائن اپ کو تہس نہس کردیا (فوٹو:سوشل میڈیا)

انھیں آؤٹ کرنے کے لیے پاکستانی بولروں کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی۔ رن آﺅٹ ہوکر ہی وہ پویلین لوٹے۔ انضمام الحق نے 37 گیندوں پر 60 رنز بنا کرمیچ کا پانسہ بدل دیا اور مارٹن کرو کی محنت رائیگاں گئی۔
اس ورلڈ کپ میں شاندار کارکردگی پرانھیں مین آف دی ٹورنامنٹ قرار دیا گیا۔ دسمبر 1992 میں پاکستان کے خلاف مسلسل دو ون ڈے میچوں میں ان کی عمدہ بلے بازی نے نیوزی لینڈ کو میچ جتوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ دونوں دفعہ وہ ناٹ آﺅٹ رہے اور مین آف دی میچ بھی ٹھہرے۔
1994میں پاکستان کے خلاف اپنے آخری ون ڈے میچ میں کرو نے 83 رنز بنائے۔
 وقار یونس سے پہلے وہ ویسٹ انڈین بولنگ اٹیک کا سامنا بھی کرچکے تھے لیکن یہ ان کی گیندوں کی برق رفتاری تھی جس نے انھیں ہیلمٹ پر گرل لگانے پر مجبور کیا۔
تین مارچ 2016 کو 53 برس کی عمر میں مارٹن کرو کا کینسر کے باعث انتقال ہوا تو وقار یونس نے انھیں شاندار لفظوں میں خراج تحسین پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ مکمل بلے باز اور نوجوانوں کے لیے انسٹی ٹیوشن کا درجہ رکھتے تھے۔
وقاریونس کا میدانِ کرکٹ میں ان سے تعلق حریفانہ لیکن میدان سے باہر دوستانہ رہا۔ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے خلاف ایک سیریز میں انھوں نے کمنٹری باکس میں اکٹھے وقت گزارا اور اس دوران کرکٹ کے بارے میں ان کے گہرے علم اور بصیرت نے وقار یونس کو متاثر کیا۔
وقاریونس کی اس رائے کی تائید مارٹن کرو کے ان مضامین سے بھی ہوتی ہے جو کرکٹ ویب سائٹس پر شائع ہوتے رہے۔
 

شیئر: