دینی مدارس کے طلبہ کو عصری مضامین پڑھانے کیلئے تو خوب کوشش کی گئی لیکن جدید تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم کی کمی کو پورا کرنا بھی مطلوب ہے
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی۔نئی دہلی
موجودہ دور میں مسلمانوں کے درمیان تعلیم کے دو دھارے جاری ہیں۔ ایک کو قدیم یا دینی کہا جاتا ہے اور دوسرے کو جدید یا عصری۔یہ دونوں دھار ے متوازی چلتے ہیں اور جس طرح دریا کے دونوں کنارے طویل ترین فاصلہ طے کرنے کے با وجود کہیں نہیں ملتے، اسی طرح اِن دونوں دھاروں کے درمیان بھی کہیں یکجائی نہیں ہوتی۔ والدین کو ابتدا ہی میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو کسی دینی مکتب یا مدرسے کے حوالے کریں یا کسی اسکول میں اس کا داخلہ کرائیں۔ جدید تعلیم حاصل کرنے والا بچہ ڈاکٹر، انجینیئر، آرکیٹیکٹ یا کسی پروفیشن کا ماہر تو بن جاتا ہے لیکن اس کی دینی تعلیم واجبی سے بھی کم ہوپاتی ہے۔ دوسری طرف مدرسے سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والا عالم و فاضل ہو کر مسجد کی امامت اور مدرسے کی مسند ِصدارت سنبھالنے کے قابل تو ہو جاتا ہے لیکن تیز رفتار ترقیات سے معمور دنیا میں وہ خود کو اجنبی محسوس کرتا ہے، چنانچہ احساس کم تری کا شکار ہو جاتا ہے۔
اس صورتحال میں کئی سوالات ابھرتے ہیں۔ کیا تعلیم کی یہ تقسیم دینی اعتبار سے درست ہے؟ کیا ایک صالح، کار آمد اور انسانیت کے لئے مفید معاشرہ کی تعمیر کے لئے اس تقسیم کو نہ صرف گوارا بلکہ باقی رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ اور سب سے بڑا سوال یہ کہ کیا مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج میں اس تقسیم کو روا رکھا تھااور کیا انھوں نے مسلم بچوں اور بچیوں کے لئے دینی تعلیم کا الگ انتظام کیا تھا؟
اسلام علم کو’ ’دینی‘‘ اور ’’دنیاوی‘‘ خانوں میں باٹنے کا قائل نہیں۔ بنیادی دینی تعلیم، جس کے ذریعہ انسان دین کے تقاضوں پر عمل کر سکے، اسے اس نے ہر مسلمان کے لئے لازم قرار دیا ہے(طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔ابن ماجہ) اس کے بعد علم و معرفت کے تمام دروازے ہر شخص کے لئے کھلے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی طلب، مواقع اور محنت کے مطابق ان سے فیض حاصل کر سکتا ہے۔ آج جن علوم کو خالص دینی علوم کہا جاتا ہے۔اگر کوئی شخص انھیں اس لئے حاصل کرتا ہے کہ ان کے ذریعہ دنیا کمائے، سماج میں اونچی پوزیشن حاصل کرے اور لوگ اس کے علم و فضل کے قصیدے پڑھیں تو اللہ کے رسول نے ایسے شخص کو وعید سنائی ہے اور فرمایا ہے کہ وہ جنت سے اتنا دور ہوگا کہ اسے اس کی خوشبو بھی نہ آسکے گی حالانکہ اس کی خوشبو میلوں دور سے محسوس ہوگی (من تعلّم علماً مماّ یبتغی بہ وجہ اللہ لا یتعلّمہ الا لیصیب بہ عرضاً من الدنیا، لم یجد عرف الجنۃ۔ابوداؤد)۔اس کے بر عکس آج جن علوم کو خالص دنیاوی علوم سمجھا جاتا ہے، اگر کوئی شخص انھیں اس لئے حاصل کرتا ہے کہ اس پر معرفت ِ خدا وندی کے اسرار کھلیں اور وہ ان کے ذریعہ خلقِ خدا کو فائدہ پہنچائے تو وہ اس پر ضرور بارگاہ الٰہی میں اجر و انعام کا مستحق ہوگا اور اس کا ٹھکانہ جنت میں ہوگا۔ قرآن کریم کی ایک آیت ہے :’’ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں‘‘۔(فاطر28)۔
اس آیت میں’ ’خشیت الٰہی ‘‘سے بہرہ ور ہونے کا سہرا ’’علماء ‘‘ کے سر باندھا گیا ہے لیکن کون سے ’’علماء ‘‘ ؟ محض روایتی، قدیم، دینی علوم کے فیض یافتگان نہیں بلکہ تمام علوم سے شغف رکھنے والے لوگ۔ اس آیت سے متصل اس کا نصف اول ٹکڑا اور اس سے پہلے کی آیت ملاحظہ کیجیے :’’ کیا تم دیکھتے نہیں ہوکہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور پھر اس کے ذریعے سے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں، جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور پہاڑوں میں بھی سفید، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں، جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں۔‘‘(فاطر 28,27)۔
دیکھا جائے تو ان آیات میں علم موسمیات ،علم نباتات، علم طبقات الارض،علم بشریات اور علم حیوانات کی طرف اشارے موجود ہیں اور ان تمام کا شمار موجودہ اصطلاحات کے اعتبار سے جدید علوم میں ہوتا ہے۔
تعلیم گاہ کی خشت ِ اول مسجد نبوی میں بنے ہوئے چبوترے پر رکھی گئی تھی، جسے ہم ’’صفہ ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ وہاں بھی علم کی جامعیت کا تصور پیش کیا گیاتھا۔ اصحاب صفہ نہ صرف قرآن حفظ کرتے اور اللہ کے رسول کے ارشادات کو سن کر اپنے سینوں میں محفوظ کرتے تھے بلکہ لکھنا پڑھنا بھی سیکھتے اور فنونِ حرب کی بھی مشق کرتے تھے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر جن سردارانِ مکہ کو گرفتار کیا گیا تھا ان کا فدیہ یہ قرار دیا گیا تھا کہ ہر شخص10 بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھادے۔ ظاہر ہے کہ ان اسیرانِ قریش نے دینی تعلیم نہ دی ہوگی۔ عہدِ اموی میں جب اسلامی مملکت کی سرحدیں وسیع ہو ئیں اور دیگر قوموں سے ربط و تعامل بڑھا تو اس زمانے کے مروّجہ علوم کو عربی زبان میں منتقل کرنے کی تحریک شرع ہوئی۔ یزید بن ابی سفیان کی وفات (م64ھ) کے بعد رواج دیے گئے دستور کے مطابق ان کے بیٹے خالد کو زمامِ اقتدار سنبھالنی تھی، لیکن اس کا علمی شغف اتنا زیادہ تھا کہ اس نے خلافت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ خالد بن یزید نے خود بھی بہت سی کتابوں کا ترجمہ کیا اور دوسروں سے بھی کروایا۔
عالم اسلام میں سیاسی آویزشیں جاری رہیں اور میدانِ سیاست میں کشت و خوں کا بازار گرم رہا، یہاں تک کہ خلافتِ بنو امیہ کا خاتمہ ہوگیا اور خلافتِ بنو عباس قائم ہو گئی لیکن علمی تحریک برابر زور پکڑتی گئی۔ عباسی حکمرانوں: منصور اور ہارون رشید نے اس کی سرپرستی کی، یہاں تک کہ مامون رشید نے اسے بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ اس کے عہد میں قائم ’’بیت الحکمہ‘‘میں اس دور کے تمام مروّجہ علوم کی کتابوں کا دیگر زبانوں سے عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔اُس دور میں خلافتِ اسلامی کے حدود میں مدارس کا قیام شروع ہوا تو ان میں علوم کی تقسیم کو روا نہ رکھا گیا۔ ان میں داخلہ لینے والے طلبہ تمام علوم حاصل کرتے تھے اور بعد میں ذوق کے مطابق کسی فن میں اختصاص کرتے تھے۔تاریخ اسلامی میں دولت سلجوقیہ کے وزیر اعظم نظام الملک طوسی (م485ھ) کے ذریعہ قائم ہونے والے مدرسے کو، جو اس کے نام سے منسوب ہو کر ’’مدرسۂ نظامیہ’‘ کہلایا، غیر معمولی شہرت حاصل ہے۔
امام غزالیؒ(م505ھ) اور ان کے استاد امام الحرمین جوینی (م478ھ) اسی طرح ابن الخطیب(م776ھ)، تبریزی شارح حماسہ(م502ھ)، ابو الحسن فصیحی شاگرد امام عبد القادر جیلانی اور سعدی شیرازی نے اس مدرسے میں تعلیم حاصل کی تھی یا تدریس کے فرائض انجام دیے تھے۔
نظام الملک نے اپنے حدودِ مملکت کے دوسرے حصوں میں بھی مدارس کا جال بچھا دیاتھا۔ علامہ شبلیؒ نے اپنے مشہور مقالہ ’’مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم ‘‘ میں ایسے مدارس کی ایک طویل فہرست نقل کی ہے جو مسلم حکمرانوں کے دور میں ان کی حدودِ مملکت میں قائم ہوئے۔ نیسا پور، بغداد، ہرات، موصل، اصفہان، ماوراء النہر، بلخ،مرواور خوارزم وغیرہ میں بڑے بڑے مدارس قائم تھے۔علامہ شبلی نے انھیں موجودہ دور کی یونیور سٹیو ں سے تشبیہ دی ہے۔ انھوں نے مصر میں نور الدین زنگی (م569ھ) اور سلطان صلا ح الدین ایوبی (م589) کے زمانوں میں قائم ہونے والے مدارس کی بھی تفصیل پیش کی ہے۔ اس کے علاوہ ایران، ترکی اور اندلس کے مدارس کا تذکرہ بھی تفصیل سے کیا ہے۔
ان مدارس میں دینی اور دنیاوی ہر طرح کے علم کی تعلیم دی جاتی تھی چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ علمائے متقدمین میں بعض ایسے حضرات بھی گزرے ہیںجو کسی دینی علم میں بھی مہارت رکھتے تھے اور کسی دنیاوی علم میں بھی۔ مثال کے طور پر الشیخ الرئیس ابو علی ابن سینا (م 438ھ) کی شہرت عظیم طبیب کی حیثیت سے ہے۔ ان کی کتاب’ ’القانون فی الطب‘‘ ایک ہزار سال سے طبی نصاب کی اہم ترین کتاب ہے۔ یوروپ کے میڈیکل کالج میں بھی تقریباً 500سال تک داخلِ نصاب رہی ہے۔ اسی کے ساتھ فلسفہ میں بھی انھیں درک حاصل تھا۔ تیسری طرف علم تفسیر میں بھی انھوں نے کئی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ علامہ علاء الدین ابن نفیس قرشی دمشقی (م 687ھ) کا شمار بھی مشہور اطباء میں ہوتا ہے۔ نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کے قائم کر دہ اسپتالوں میں وہ افسر الاطباء رہے۔ اس کے علاوہ وہ عظیم فقیہ بھی تھے۔ قاہرہ کے مدرسہ مسروریہ میں فقہ شافعی کا درس دیتے تھے۔ اس ضمن میں اندلس کے علامہ ابن رشد قرطبی(م 595ھ) کا
تذکر ہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ وہ بیک وقت طبیب بھی تھے،فلسفی بھی اور فقیہ بھی۔ فقہ میں ان کی کتاب ’’بدایہ المجتھد‘‘، فلسفہ میں ’’ تھافت التھافت ‘‘اور طب میں ’’کتاب الکلیات‘‘، یہ تینوں اب تک مرجعِ خلائق ہیں اور مشرق و مغرب میں ان سے بھر پور استفادہ کیا جا رہا ہے۔
غیر منقسم ہندوستان میں بھی مدارس کے قیام کی ایک زرّیں تاریخ ہے۔ عہدِ سلطنت میں اور بعد میں مغلیہ عہد میں ملک کے ہر حصہ میں مدارس قائم کیے گئے۔ ان میں تمام مروجہ علوم پڑھائے جاتے تھے۔ ان مدارس کو حکومت کی سرپرستی حاصل رہتی تھی اور ان کا پورا خرچ سرکاری طور پر اٹھایا جاتا تھا۔ ہندوستان سے جب مسلمانوں کی حکمرانی ختم ہوئی اور اس پر انگریزوں کا تسلط قائم ہوا تو ان مدارس پر افتاد پڑی۔ سرکاری امداد سے محروم ہوجانے کی وجہ سے وہ بند ہو گئے۔ انگریزوں نے اپنا نظام ِتعلیم جاری کیا۔ اس کے تحت جو تعلیمی ادارے قائم کیے گئے وہ ظاہر ہے کہ انگریزوں کی ضرورت پوری کر نے کے لئے تھے۔ سیاسی یلغار کے ساتھ فکری یلغار کی بھی زبردست کوششیں کی گئیں اور عیسائیت کو خوب بڑھاوا دیا گیا۔
اس صورت حال نے تعلیم کی دوئی پیدا کی اور دینی تعلیم اور غیر دینی تعلیم کے دھارے وجود میں آئے۔ کچھ مسلمانوں کے ذریعہ ایسے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے جو انگریزی حکومت کی ضروریات پوری کر سکیں اور ان کے لئے سول سرونٹس فراہم کر سکیں۔ دوسری طرف ہندوستان میں مسلمانوں کے تہذیبی وجود و بقا کے لئے فکر مند اصحاب نے ان کے لئے خالص دینی تعلیم کے ادارے قائم کیے، تاکہ ارتداد سے ان کی حفاظت ہو سکے اور وہ مسلمان رہتے ہوئے یہاں زندگی گزار سکیں۔علی گڑھ کالج غیر دینی تعلیم کا نمائندہ تھا تو دیوبند کا مدرسہ انھیں دینی تعلیم فراہم کرتا تھا۔ ڈیڑھ سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے، انگریزوں کی حکومت ختم ہو چکی ہے، یہ دونوں دھارے الحمدللہ اب بھی متوازی چل رہے ہیں اور اپنی اپنی جگہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ادھر کچھ عرصے سے مسلمانوں کی سوچنے سمجھنے والی اور ان کی فلاح و بہبود سے دلچسپی رکھنے والی شخصیات میں تعلیم کی دوئی کو ختم کرنے یا کم سے کم دونوں نظام ہائے تعلیم کے درمیان قربت پیدا کرنے کی فکر ہوئی اور اس کے لئے انھوں نے مختلف تدابیر اختیار کیں۔ ایک تدبیر انھوں نے یہ اختیار کی کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو کچھ انگریزی پڑھادی جائے اور معاشیات، سیاسیات اور کچھ دوسرے مضامین کی شدھ بدھ فراہم کر دی جائے تاکہ وہ عصر حاضر کے تقاضوں سے بالکل اندھیرے میں نہ رہیں اور جدید تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اپنے دین سے بالکل نا بلد نہ رہ جائیں اس کیلئے صباحی اور مسائی تعلیم ا انتظام کیا گیا۔ اس تعلق سے زیادہ زور اور محنت دینی تعلیم کے اداروں پر صرف کی گئی۔ مدارس کے نصاب کو out of dateقرار دیا گیا،اس کی اصلاح کے لئے زبردست تحریکیں چلائی گئیں، کانفرنسیں منعقد کی گئیں، سمینار اور ورکشاپ کیے گئے، تجویز کردہ نئے نصاب کے مطابق کتابیں تیار کی گئیں۔ دوسری تدبیر یہ اختیار کی گئی کہ دینی مدارس کے فارغین کو جدید مضامین سے واقف کرنے کے لئے خصوصی کورسز شروع کیے گئے۔ اس سلسلے میں ملک کے مختلف حصوں میں متعدد تجربات ہو رہے ہیں۔ یہ تمام کوششیں قابلِ قدر ہیں۔ ان کے کچھ ثمرات بھی ظاہرہو رہے ہیں، لیکن راقم کا احساس ہے کہ ایک طرف دینی مدارس کے طلبہ کو عصری مضامین پڑھانے کے لئے تو خوب کوشش کی گئی، لیکن دوسری طرف جدید تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے والے بچوں کی دینی تعلیم کی کمی کو پورا کرنے کیلئے جتنی کوششیں مطلوب تھیں ، وہ نہ کی جاسکیں۔ دینی مدارس میں مسلم آبادی کے زیادہ سے زیادہ 4فیصد بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان کی جدید تعلیم کے لئے تو اتنی فکر اور کوشش کی گئی ، لیکن جدید تعلیمی اداروں میں داخل96 فیصد بچوں کو بنیادی دینی تعلیم سے بہرہ ور کرنے کے لئے اس کا عشر عشیر بھی کوششیں نہیں کی گئیں۔
تعلیم کی دوئی ختم کرنے کے لئے ایک نظریہ یہ پیش کیا گیا کہ ابتدا میں ایک مرحلے تک بچوں کو دینی اور غیر دینی دونوں طرح کے مضامین پڑھائے جائیں، اس کے بعد اختصاص کی تعلیم شروع کی جائے۔ اس مر حلے میں بچے کے ذوق اور دلچسپی کو دیکھتے ہوئے کسی ایک فن کو خاص کر دیا جائے اور وہ اس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرے اور جس حد تک مہارت پیدا کر سکے، کرے۔یہ ایک آئیڈیل نظریۂ تعلیم ہے ،لیکن یہ جتنا دلکش معلوم ہوتا ہے اتنا ہی دشوار ہے۔ اس کے متعدد تجربے کیے جا رہے ہیں، لیکن اس میں خاطر خواہ کام یابی نہیں ملی، پھر بھی مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اس راہ میں برابر پیش قدمی کی جاتی رہے تو ان شا ء اللہ منزل دور نہیں ہوگی۔