Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا، پاکستانی طلبا کا بیرون ملک پڑھائی کا خواب ادھورا

پاکستان سے کم و بیش سالانہ 50 سے 60 ہزار طلبا بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتے تھے (فوٹو: ٹوئٹر)
کورونا وائرس کی وبا نے جہاں دنیا بھر میں ہرشعبہ زندگی کو متاثر کیا ہے وہاں پاکستانی طلبا بھی اس وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں سے ہیں۔
سفینہ اسلم کا تعلق پاکستان کے ضلع راولپنڈی سے ہے۔ انھوں نے اے لیول کا امتحان  اندازے سے نمبر(aggregate  (لگنے کے باوجود اچھے نمبروں میں پاس کیا اور ان کی خواہش تھی کہ وہ بیرون ملک جا کر مزید تعلیم حاصل کریں اور کمپیوٹر سائنس کے شعبے میں اعلی ڈگری برطانیہ یا آسٹریلیا سے حاصل کریں۔
اس حوالے سے ان کے والدین نے نہ صرف وسائل کا انتظام کر رکھا تھا بلکہ کئی ایک بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے اپلائی بھی کر رکھا تھا۔ داخلے کے لیے اپلائی کرنے کے نتیجے میں ان کو مثبت ردعمل بھی ملا اور داخلے کا پروسیس بھی شروع ہوا لیکن کورونا کے باعث یہ پروسیس مکمل نہ ہوسکا۔
 
جہاں پروسیس مکمل ہوا اس ملک کا سفارت خانہ بند ہونے کے باعث ویزے کا حصول ممکن ہونا تو دور ویزہ کے لیے درخواست دینے کا موقع بھی میسر نہیں آیا۔
اردو نیوز نے گفتگو کرتے ہوئے سفینہ اسلم نے بتایا کہ ’میری خواہش تھی کہ میری تعلیم کا سلسلہ نہ رکے اور اپنے والدین کی خواہش کے مطابق بیرون ملک سے اعلی تعلیم حاصل کرکے لوٹوں لیکن اس سفر کا آغاز ہی اتنا برا ہوا کہ مجھے لگتا ہے کہ میرا خواب ادھورا رہ گیا ہے۔'
انھوں نے کہا کہ 'ایک دو یونیورسٹیوں کی جانب سے ای میل موصول ہوئی ہے کہ میں ان کی آن لائن کلاسز میں شامل ہوجاؤں اور حالات معمول پر آنے کے بعد آن کیمپس کلاسز میں شامل ہو ہو جاؤں لیکن یہ بیرون ملک تعلیم کے حصول کے مقصد سے مطابقت نہیں رکھتا تھا اس لیے میں نے منع کر دیا۔‘
اسلام آباد سے ایجوکیشن کنسلٹنٹ ماجد علی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’روان سال بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے جانے والوں کی شرح بہت ہی کم رہی بلکہ یو کہیے کہ گزشتہ سالوں کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر رہی ہے۔ ہمارے پاس آنے والے سینکڑوں طلبا میں چند ایک کے علاوہ باقی سب نے آن کلاسز کا آپشن ترک کر دیا ہے۔‘
اپنے طور پر بیرون ملک جانے والے طلبا کے علاوہ پاکستانی جامعات کے بہت سے اساتذہ بھی ایچ ای سی کے فیکلٹی ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت بیرون ممالک تعلیم کے حصول کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔

بہت سے افراد اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں یا ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنے تعلیمی سلسلے کو بھی آگے بڑھاتے ہیں۔ (فوٹو: عرب نیوز)

یونیورسٹی آف بلتستان کے استاد آفتاب  وزیر نے بھی اس سال یہ سکالرشپ حاصل کی اور برطانیہ میں داخلہ لیا۔
اردو نیوز سے گفتگو میں آفتاب وزیر نے بتایا کہ 'یونیورسٹی آف ویسٹ منسٹر میں داخلہ ہوا اور ویزے کے لیے اپلائی کیا۔ ویزہ میں کچھ مسائل ہوئے اور کورونا کے باعث اپوائنمنٹ میں مسائل ہوئے تو تب تک کلاسز ان لائن ہو چکی تھیں۔ ایچ ای سی نے ہمیں آن لائن کلاسز لینے سے منع کر دیا۔ کلاسز ستمبر میں شروع ہونا تھیں تو مجھے اپنا سمیسٹر فریز کرنا پڑا۔‘
انھوں نے کہا کہ 'برطانوی قانون کے مطابق سمیسٹر فریز نہیں ہوتا بلکہ پورا سال تعلیم موخر ہوتی ہے۔ اب میرا پورا سال ضائع ہوگیا ہے۔ میرا پورا کورس 14 ماہ کا تھا لیکن اب جب اگست یا ستمبر میں حالات بہتر ہونے کی صورت میں برطانیہ جاؤں گا تو میرے ساتھ یہ احساس ضرور جائے گا کہ اگر حالات خراب نہ ہوتے تو میں اس وقت اپنا کورس مکمل کرنے کے بالکل قریب ہوتا۔ کورونا میرا واقعی ایک سال کھا گیا ہے۔‘
بہت سے افراد اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں یا ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنے تعلیمی سلسلے کو بھی آگے بڑھاتے ہیں۔ سینیٹ آف پاکستان کے میڈیا ڈائریکٹر رمضان ساجد نے بھی رواں سال وکٹوریہ یونیورسٹی آف ولنگٹن سے پی ایچ ڈی کرنے کا سوچا اور داخلہ بھی لے لیا۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ 'میرا داخلہ ہوگیا تو میں نے ویزہ اپلائی کیا۔ میرا خیال تھا کہ میں مارچ میں چلا جاؤں گا لیکن اس سے پہلے ہی نیوزی لینڈ نے اپنے بارڈرز بند کر دیے اور ویزہ دفاتر بھی بند کر دیے تھے۔ اب امید ہے کہ فروری 2021 میں جا سکوں گا۔ آن لائن کلاسز کا سلسلہ شروع ضرور ہوا لیکن میرے سپروائزر نے ان لائن کلاسز سے منع کر دیا تھا۔‘

کورونا کے باعث سفری پابندیوں کی وجہ سے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے طلبا مشکلات کا شکار ہے (فوٹو: ٹوئٹر) 

انھوں نے کہا کہ 'سب سے بڑا نقصان تو یہ ہوا ہے کہ انسان نے پلان کیا ہوتا ہے کہ اتنے عرصے میں یہ کام کرنا ہے۔ اگر کورونا نہ ہوتا تو میں اب تک اپنی پی ایچ ڈی کورس کے نصف میں ہوتا۔ دوسرا یہ کہ فیس جمع کروائی تھی جو 9 لاکھ روپے تھی اب وہ بھی استعمال نہیں کر سکتے۔ اسی طرح جو رقم اپنے اخراجات کے لیے بچا کر رکھی تھی خدشہ ہے کہ وہ خرچ نہ ہو جائے۔ تیسرا یہ کہ مقامی طور پر بھی داخلہ نہیں لیا۔ اب نہ یہاں کر سکتا ہوں اور نہ ہی وہاں جا پا رہا ہوں۔‘
یاد رہے کہ پاکستان سے کم و بیش سالانہ 50 سے 60 ہزار طلبا بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتے تھے لیکن رواں سال جانے والوں کی تعداد انتہائی کم رہی ہے۔

شیئر: