Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فاروق ستار: ’کیا سے کیا ہو گئے دیکھتے دیکھتے‘

کراچی کے علاقے پیر الہی بخش کالونی کی اس تنگ گلی میں 120 گز کا مکان، ڈاکٹر فاروق ستار کی رہائش گاہ ہے۔ وہ فاروق ستار جو متحدہ قومی موومنٹ کی بانی تنظیم آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بعد میں آل پاکستان متحدہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن) کے بانی اراکین میں سے ایک تھے، پھر مہاجر قومی موومنٹ (متحدہ قومی موومنٹ) سے سیاسی سفر کا آغاز کرکے 1987 میں محض 27 کی عمر میں کراچی کے کم عمر ترین میئر منتخب ہوئے۔
اس کے بعد دو مرتبہ رکن صوبائی اسمبلی، صوبائی وزیر، پانچ مرتبہ رکن قومی اسمبلی، وفاقی وزیر اور پھر ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ بنے۔ لیکن آج کسی سیاسی جماعت کا حصہ تک نہیں ہیں۔ قومی سیاست کے وہ رہنما جن کا انٹرویو کرنا کبھی کسی بھی رپورٹر کے لیے بہت مشکل تصور کیا جاتا تھا، اور ان کے ایک بیان سے ٹی وی کی سکرین پر لال ڈبے (بریکنگ نیوز) گھومتے رہتے تھے، حالیہ دنوں میں حریم شاہ کے ساتھ ٹک ٹاک ویڈیو کی وجہ سے زیربحث رہے۔

مجھے ’یوں‘ نکالا!

سیاسی کیریئر کے نشیب و فراز پر اردو نیوز کے ساتھ انہوں نے اپنی بات چیت کا آغاز اس شعر سے کیا:
سوچتا ہوں کہ وہ کتنے معصوم تھے، کیا سے کیا ہو گئے دیکھتے دیکھتے،
میں نے پتھر سے جن کو بنایا صنم، وہ خدا ہو گئے دیکھتے دیکھتے،
فاروق ستار نے کہا کہ ’22 اگست وہ دن تھا جس نے متحدہ قومی موومنٹ اور اس کی سیاست کو بدل کر رکھ دیا۔ پوری جماعت میں کوئی ایک رہنما بھی ایسا نہیں تھا جو صورتحال کو سنبھالتا۔ جو نقصان الطاف حسین نے 22 اگست کو کیا، اگر میں 23 اگست کو علیحدگی کا اعلان نہ کرتا تو 10 ہزار کارکن گرفتار ہوتے اور ایم کیوایم ختم ہو جاتی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’لیکن اس کے بعد جب میں نے ایم کیوایم کو کرپشن سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا تو معاملات بالکل بدل گئے۔‘
'صفائی اور چھٹائی' کی بات 'شہری علاقوں کے لٹیروں' کو بہت ناگوار گزری۔ اسی لیے اس ٹولے نے پہلے مجھ سے متحدہ کی سربراہی چھین لی اور پھر پارٹی سے بھی نکال دیا۔ صرف پارٹی کا مخصوص ٹولہ ہی نہیں بلکہ ملک کی کچھ طاقتور قوتیں بھی چاہتی تھیں کہ 'مائنس الطاف حسین' کے بعد 'مائنس فاروق ستار' بھی ہوجائے۔

فاروق ستار کہتے ہیں کہ وہ برے وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

میرے ساتھ کے لوگوں نے نئی پارٹی بنالی یا ملک سے باہر چلے گئے۔ لیکن میں برے وقتوں میں متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ کھڑا رہا۔ میں نے کبھی نئی جماعت نہیں بنائی۔ میرا قصور صرف یہ تھا کہ میں نے پارٹی کے اندر احتساب کی بات کی۔
متحدہ کی ہر شاخ پر الو؟
فاروق ستار کہتے ہیں کہ متحدہ قومی موؤمنٹ پاکستان کی بلدیاتی تاریخ کی بدترین اور ناکام ترین کارکردگی حالیہ چار سالوں میں ہوئی۔ آج یہاں 'ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے'۔ چیلنچ کرتا ہوں کہ ایم کیوایم کے رہنما اپنے گوشوارے عوام کے سامنے رکھیں اور مجھے کارکنوں کے سامنے جھٹلائیں۔ حالات یہی رہے تو آئندہ بلدیاتی انتخابات میں میں میئر تو دور کی بات، ایم کیوایم کسی ایک ضلع کا چیئرمین بھی نہیں منتخب کرواسکے گی۔ کراچی کے لیے 11 سو ارب روپے کا پیکج ان کے منشور میں شامل ہی نہیں تھا۔ یہ تو کراچی ڈوبا اور چیخیں بلند ہوئیں تو یہ اعلان ہوا۔ شہر کی سڑکیں تباہ اور گٹر ابل رہے ہیں۔ اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس کا جواب دینے کے لیے فاروق ستار نے ایک اور شعر کا سہارا لیا،
دیکھا جو تیر کھا کہ کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
فاروق ستار کی ایم کیوایم میں واپسی؟
مجھ سے غلطیاں ہوئیں لیکن یہ غلطیاں 'صرف' مجھ سے نہیں ہوئیں۔ ایم کیوایم میں میرے ساتھ جو کچھ ہوا میں اُسے بھلانے کے لیے تیار ہوں۔ متحدہ کے موجودہ کنوینر خالد مقبول صدیقی میرے لیے متحدہ قومی موومنٹ میں راستہ ہموار کریں۔ ہم دونوں مل کر پارٹی چلائیں گے۔ اس انٹرویو کے ذریعے خالد مقبول صدیقی کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ میں ماضی کے تلخ تجربے کو بھول جاوں گا۔ جب ہم ساتھ ہوں گے تو مصطفی کمال (چیئرمین پاک سرزمین پارٹی) اور انیس قائمخانی (صدر پاک سرزمین پارٹی) کو بھی سمجھائیں گے۔ ہم سب مل کر کراچی میں باغ جناح کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ کرسکتے ہیں۔
کیا فاروق ستار کی سیاست ختم ہوگئی؟
یہ میری سیاست کا اختتام نہیں بلکہ نظریاتی سیاست کا دوبارہ آغاز ہے۔ میرا اوڑھنا بچھونا آج بھی ایم کیوایم کا نظریہ ہے۔ یہ شہری سندھ کے لٹیرے پتنگ کے پیچھے چھپ کر سمجھتے ہیں کہ ایم کوایم کا جسم انہیں مل گیا ہے لیکن ایم کیوایم کی روح آج بھی میرے پاس ہے۔ میں 'ٹھڈے' والی پتنگ کو اتار کر اس کے 'کننے' ٹھیک کرکے پھر سے اڑاؤں گا۔ اگر بلدیاتی الیکشن سے پہلے ہم متحد ہو گئے تو انتخابات میں لوگ خود فیصلہ کریں گے کہ فاروق ستار کی سیاست ختم ہو گئی یا نہیں۔

'صفائی اور چھٹائی کی بات 'شہری علاقوں کے لٹیروں' کو بہت ناگوار گزری۔' فائل فوٹو: اے ایف پی

مسلم لیگ نون کو فاروق ستار کی ضرورت؟
مجھ پر مسلم لیگ نون کی طرف سے شمولیت کے لیے بہت دباؤ ہے۔ ن لیگ قیادت کی یہ خواہش ہے کہ میں مرکزی کمیٹی کا حصہ بن جاوں۔ انہوں نے پیغام پہنچایا ہے کہ ن لیگ کو میری بہت ضرورت ہے۔ وہ مجھے مسلم لیگ نون کی سندھ کی صدارت بھی دینا چاہتے ہیں۔
اس کے علاوہ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کی دعوت دینے کے لیے مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ وزیراعلی سندھ نے بھی پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت کے لیے مجھ سے رابطہ کیا ہے۔
بائیس اگست کو الطاف حسین کے ذہن میں کیا منصوبہ تھا؟
بانی ایم کیوایم الطاف حسین سے آخری رابطہ 22 اگست کی صبح ہوا۔ ہم اس وقت کے وفاقی وزیر پرویز رشید سے ملاقات کرکے آئے تھے۔ پرویز رشید نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وزیراعظم خود آکر ایم کیوایم کی ہڑتال ختم کروائیں گے اور تحفظات دور کرنے کے لیے کمیٹی کا بھی اعلان کریں گے۔ الطاف حسین نے فون پر تفصیلات سنیں اور کہا "تم سب فوج سے مل گئے ہو۔" لیکن بانی ایم کیوایم کے زہن میں کوئی اور منصوبہ تھا۔ تمام یقین دہانیاں ہوجانے کے بعد بھی انہوں نے انتہائی قدم اٹھالیا اور ہم سر پکڑ کر بیٹھ گئے۔
میں اسی رات متحدہ کو پاکستان سے چلانے کا اعلان کرنے والا تھا، اسی لیے کراچی پریس کلب پہنچا۔ لیکن رینجرز انسپکٹر ٹھاکر مجھے گھسیٹتا ہوا لے گیا، کیا 'ٹھاکر' میرے قد کے مسلم لیگ نون یا پیپلزپارٹی کے رہنما تو سڑک پر ایسا گھسیٹ سکتا تھا؟

کراچی کے لیے 11 سو ارب روپے کا پیکج ان کے منشور میں شامل ہی نہیں تھا۔ یہ تو کراچی ڈوبا اور چیخیں بلند ہوئیں تو یہ اعلان ہوا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

اگلے دن پریس کانفرنس میں وہی اعلان کیا جو گزشتہ رات کرنا چاہتا تھا۔ لیکن لوگوں نے سمجھا کہ مجھے رینجرز نے کوئی ڈکٹیشن دی ہے۔
بے خبری اور حریم شاہ
میں بس یہ کہنا چاہوں گا کہ میں نے بے خبری میں حریم شاہ کے ساتھ ویڈیو میں آیا۔ ایک سوشل میڈیا ٹیم مجھ سے ملنا چاہتی تھی اور انہوں نے حریم شاہ کا تعارف میری فین کے طور پر کرایا اور کہا کہ یہ آپ کے ساتھ تصویر بنوانا چاہتی ہے۔ میں نے حریم شاہ کے قصے تو سن رکھے تھے لیکن اس کو چہرے سے نہیں پہچانتا تھا۔ یوں وہ ٹک ٹاک ویڈیو بن گئی اور وائرل بھی ہوگئی۔ یہ میری سادگی تھی کہ یہ سب ہوگیا، مجھے ان چیزوں میں آئندہ احتیاط کرنی چاہیے۔

شیئر: