یہ کراچی کے قدیم شہر کا ایک مٹیالا سا منظر ہے۔ ٹریفک اتنا ہے کہ شہریوں کے لیے سڑک پر پاؤں رکھنا مشکل ہے، فٹ پاتھ پر اس لیے نہیں چل سکتے کیونکہ یہ جگہ پتھاروں نے گھیر رکھی ہے، آڑھی ترچھی موٹرسائیکل پارکنگ نے اس گزرگاہ کے ساتھ وہی کام کیا ہے جو کولیسٹرول دل کی شریانوں کے ساتھ کرتا ہے۔
برطانوی دور کی تاریخی عمارتوں کے چہرے بھی مکڑی کے جالوں کی مانند بجلی کی تاروں کے گچھوں نے چھپا دیے ہیں، سڑک پر بوجھ برداشت سے باہر ہوجائے تو اس کے نیچے موجود بوسیدہ سیوریج کی لائنیں رسنا شروع ہوجاتی ہیں، اور دیکھتے ہی دیکھتے اس ٹکڑے کو تالاب میں تبدیل کردیتی ہیں۔
شاید ہی کراچی کا کوئی مسئلہ ہو جو اس علاقے میں نظر نہ آ رہا ہو۔ یہ کراچی کا میریٹ روڈ ہے جو ڈینسو ہال لائبریری کے عقب میں واقع ہے۔
میریٹ روڈ پر بسنے والے، یہاں سے گزرنے والے یا پھر اسے ذریعہ معاش بنانے والے کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ یہ علاقہ کراچی کا دل ہے۔
کراچی "شہر" کی بنیاد انیسویں صدی میں انہی علاقوں میں پڑی۔ اس وقت کراچی کے اولڈ سٹی ایریا میں موجود پانچ اضلاع - مارکیٹ کوارٹرز، نیپئر کوارٹرز، اولڈ ٹاون کوارٹرز، بندر کوارٹرز اور مچھی مان کوارٹرز – دراصل پاکستان کے سب سے بڑے شہر کا "برتھ سرٹیفکیٹ" ہیں اور اس کی "شناختی علامت" یہاں موجود وہ تاریخی ورثہ ہے جو برطانوی دور کی تعمیرات ہیں۔ اولڈ سٹی ایریا میں جڑے 1890 میں جیمز سٹریچن کے نقشے نے بھی انہیں پانچ کوارٹرز سے پھیلنا شروع کیا۔
آج یہ شہر اتنا پھیل چکا ہے کہ ماضی کے یہ پانچ اضلاع، موجودہ شہر کے ایک ضلع کا 25 فیصد بھی نہییں ہیں۔ تاریخی اعتبار سے یہ پانچ کوارٹرز کراچی کا "ہیریٹج کورheritage core - " ہیں۔ آج کے کراچی کو یہاں تک پہنچنے میں ڈھائی ہزار سال لگے ہیں۔ یہ سکندر اعظم کے نقشے میں کروکالہ دکھائی دیتا ہے، محمد بن قاسم کا دیبل ہے، اٹھارویں صدی کا کلاچی جو گوٹھ، کروچی اور کوراچی ہے، اور بلاآخر یہ سفر انیسویں صدی میں موجودہ کراچی پر پہنچ کر حتمی ہوجاتا ہے۔
مستقبل کی نسلوں کے لیے شہر کے تاریخی ماضی کو محفوظ کرنے کے ایک پروجیکٹ کا نام "ہیریٹیج ٹریل heritage trail -"ہے جسے معروف ماہر تعمیرات اور ہیریٹج فاونڈیشن آف پاکستان کی سی او یاسمین یاری نے مکمل کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ان کا یہ ہیریٹیج ٹریل پروجیکٹ دراصل قدیم کراچی میں نئی روح پھونکنے کا نام ہے۔
’اس میں کراچی کے قدیم شہر میں رینگتی دو گزرگاہیں ہیں، جس میں ایک کی لمبائی دو کلومیٹر جبکہ دوسری کی لمبائی ڈیڑھ کلومیٹر ہے۔ ایک ڈٰینسو ہال سے کسٹمز ہاوس کو جاتی ہے جبکہ دوسری مارکیٹ کوارٹرز کو نیپئر کوارٹرز سے جوڑتی ہے۔ ان گزرگاہوں میں بہت ساری تاریخی عمارتیں موجود ہیں۔ ان عمارتوں کو یورپی اور مقامی طرز پر تعمیر کیا گیا تھا۔ آپ ڈینسو ہال سے چلیں، پھر قائداعظم محمد علی جناح کی جائے پیدائش وزیر مینشن سے ہوتے ہوئے، کراچی پورٹ ٹرسٹ کی قدیم عمارت تک جاپہنچیں۔ان سڑکوں پر چہل قدمی کرنا ہی بہت دلفریب تجربہ ہے۔‘
ہر طرف دھول مٹی اڑاتے اکیسویں صدی کے میگا سٹی میں یاسمین لاری انیسویں صدی کا ماحول دوست اور انسان دوست کراچی ڈھونڈ رہی ہیں۔
اس منصوبے سے شہری اور ماحول دونوں خوش ہوں، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اس پروجیکٹ میں کچھ دلچسپ پہلو رکھے گئے ہیں۔ ہیریٹج ٹریل کے ابتدائی حصے (ڈٰینسو ہال کے عقب والی سڑک) میں آنے والی چار سو فٹ لمبی گزرگاہ میں چھ سو درخت بھی لگائے جانے ہیں۔
کنکریٹ کا استعمال کم ہو اسی لیے سڑک کی تعمیر کے لیے بھی خصوصی "ٹیراکوٹا" ٹائلز استعمال کیے جائیں گے۔ چکنی مٹی اور لائم کے امتزاج سے بننے والے یہ ٹائلز، سندھ کے قدیم شہر مکلی کے "زیرو کاربن سینٹر" میں بنائے جائیں گے۔ انہیں مقامی خواتین تیار کرتی ہیں جس سے ان کا گزربسر بھی ہوتا ہے۔
تاریخی عمارتوں کو محفوظ کرنے والے اس منصوبے کا اہم جُز خواتین اور بچے بھی ہیں۔ کراچی کے قدیم شہر کی تنگ گلیوں میں ضرورت سے زیادہ رش کے باعث یہاں گھروں میں بسنے والی خواتین اور بچے صرف کھڑکیوں تک محدود ہیں اور ان کے لیے یہاں چہل قدمی کرنا محال ہے۔ دہائیوں بعد یہ گزرگاہ انہیں یہ موقع فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی۔
یہ تصور جتنا دلفریب ہے، اس منصوبے کو تکیمل تک پہنچانا اس سے کہیں زیادہ کٹھن ہے۔ ان دونوں گزرگاہوں پر فروری 2020 میں کام شروع ہوا اور پھر ایک ایسی ان دیکھی رکاوٹ نے یہ راستہ روک دیا جس کی پیش گوئی دنیا کے کسی ماہر تعمیرات نے نہیں کی تھی، اور وہ رکاوٹ تھی کرونا وائرس۔ کرونا کیسز بڑھنے کے بعد پاکستان میں مارچ کے مہینے میں لاک ڈاون لگادیا گیا۔ جس سے بحالی کے کام کی روانی بہت حد تک متاثر ہوئی۔
انہی دنوں مون سون بارشوں کے تباہ کن دورانیے نے کراچی کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ گزرگاہ میں درختوں کے لیے کی گئی کھدائی میں بارش کا پانی اور اس کے ساتھ بہنے والا کچرا بھر گیا۔ کچھ یہی حشر"کراچی الیکٹرک" کی خندقوں کا ہوا جنہیں تاروں کو زیرزمین کرنے کے لیے کھودا گیا تھا۔ سڑک پر موجود واٹر بورڈ کے چاروں مین ہولز بھی پانی کا دباؤ اور بہاؤ برداشت نہیں کرسکے۔ کچھ وقت تک تو سب کچھ رکا رہا لیکن اب معاملات بہتری کی ڈگر پر چل پڑے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ اتنے بڑے منصوبے میں مقامی، صوبائی یا وفاقی حکومت سے ایک روپیہ فنڈ بھی نہیں لیا گیا۔ تو پھر ان کاموں کو مکمل کرنے کے پیسے کہاں سے آئیں گے؟
یاسمین لاری نے اس کا بھی ایک منفرد طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ یہاں سڑک کی تعمیر میں استعمال ہونے والے ایک ٹیراکوٹا ٹائل کی قیمت سو روپے ہے۔ یہ ٹائلز عطیہ کرکے شہری اپنی استطاعت کے مطابق اس بحالی کے پروگرام میں چندہ دے سکیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کم از کم پانچ ہزار روپے کے ٹائلز عطیہ کرنے والے شہری کا نام دیوار پر کندہ کردیا جائے گا۔
"میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ ورلڈ بینک ہماری تجویز کردہ دو میں سے ایک ٹریل کو بنانا چاہتا ہے۔ اگر ایسا ہوجائے تو بہت بہتر ہوگا۔ کیونکہ لوگوں کو اندازہ ہوچکا ہے کہ یہ شہر اذیت بن چکا ہے۔ شہر تو شہریوں کے لیے بسائے جاتے ہیں، اس لیے نہیں کہ ان کا ہر حصہ گاڑیوں کے لیے وقف کردیا جائے۔ اس راہ گزر کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہاں ہر اتوار کو ثقافتی سرگرمیاں ہوں اور کراچی میں بسنے والی وہ برادریاں جن کی ثقافت پر بات نہیں ہوتی وہ یہاں آئیں اور اپنے رہن سہن اور اقدار کا اظہار کریں۔ میں چاہتی ہوں یہاں ہر طرح کے کھانے ہوں، دستکاریاں ہوں، قصہ خوانی ہو، تھیٹرز ہوں، اور یہ ہر امیر غریب کے لیے میسر ہوں۔"
اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے یاسمین لاری کہتی ہیں کہ کووڈ نائنٹین نے ہمیں بتادیا کہ صحت کا خیال رکھنا کتنا ضروری ہے۔ ہم اپنے اردگرد صحت بخش ماحول پیدا کرکے سب کا خیال رکھ سکتے ہیں۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں