کورونا اور لاک ڈاؤن: سال 2020 نے دنیا کو کس حد تک تبدیل کردیا؟
کورونا اور لاک ڈاؤن: سال 2020 نے دنیا کو کس حد تک تبدیل کردیا؟
پیر 28 دسمبر 2020 20:56
31 دسمبر 2019 کو ووہان میں نمونیا کے حیران کن کیسز سامنے آئے تھے۔ فوٹو اے ایف پی
کورونا وائرس کی وبا نے گزشتہ بارہ مہینوں سے عالمی معیشت کو مفلوج کر رکھا ہے، سماجی زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے جبکہ 4 ارب لوگ اپنے گھروں تک محدود ہو کر رہے گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق دوسری جنگ عظیم کے بعد سے سال 2020 نے دنیا کو اس انداز میں بدل کر رکھ دیا کہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔
موذی امراض کے ماہر اور امریکی ییل یونیورسٹی کے پبلک ہیلتھ کے ڈین سٹین ورمنڈ کے مطابق کورونا وائرس کی عالمی وبا سے پیدا ہونے والے حالات کا تجربہ ہر شخص کے لیے انتہائی منفرد حیثیت رکھتا ہے۔
’ہم میں سے ایسا کوئی شخص نہیں ہے جس پر یہ وبا اثرانداز نہ ہوئی ہو۔‘
کورونا وائرس سے متاثر ہونا انتہائی آسان ہے، کسی بھی غلط جگہ یا غلط مقام پر کھڑے ہو کر سانس لینے سے یہ وائرس لگ سکتا ہے۔
کورونا سے متاثر ہونے والے ایک 44 سالہ شخص نے اپنا تجربہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’میں دوزخ کے دروازے پر پہنچ کر واپس آیا ہوں۔‘
چین میں رہنے والے ون چن ہائی نامی اس شخص نے وائرس سے متاثر ہونے کے بعد 17 دن ہسپتال میں گزارے تھے۔
’میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ لوگ ٹھیک نہیں ہو سکے اور ہلاک ہو گئے، جس کا میرے اوپر بہت گہرا اثر تھا۔‘
کورونا کی عالمی وبا سے دنیا بھر میں اب تک 17 لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ 8 کروڑ اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ ہلاکتوں اور وائرس سے متاثر ہونے والوں کے اعداد و شمار حقیقت میں کئی زیادہ تصور کیے جا رہے ہیں۔
اس سال کے دوران کئی بچے یتیم ہو گئے، اکثر نے اپنے والدین یا شریک حیات کھو دیے۔ اسے بھی زیادہ دکھ کی بات شاید یہ ہے کہ وائرس کا شکار افراد اکیلے ہی ہسپتال کے بستر پر بیماری جھیلتے رہے اور اپنوں سے دور رہتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملے۔
لیکن ماہرین کے خیال میں کورونا وائرس پھر بھی اس طرز کی خطرناک وبا نہیں تھی جیسی کے ماضی میں گزر چکی ہیں۔
چودہویں صدی میں بوبونک طاعون نے ایک تہائی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے کر صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا۔ جبکہ 1918-1919 میں 5 کروڑ افراد ہسپانوی فلو کے باعث ہلاک ہو گئے تھے۔ علاوہ ازیں ایڈز کی بیماری سے اب تک 3 کروڑ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سائنسدان کئی دہائیوں سے عالمی وبا کے حوالے سے خبردار کر رہے تھے لیکن کسی ملک نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کا تقریباً ایک پورا سال وبا کا مقابلہ کرنے کے بعد ویکسین تیار ہوئی جو ابھی تک تمام ممالک کو فراہم نہیں کی جا سکی۔
جن چند ممالک میں ویکیسن پہنچ چکی ہے وہاں بھی ابھی ویکسین لگانے کا پہلا مرحلہ جاری ہے جس میں عمر رسیدہ افراد اور طبی عملے کو سب سے پہلے ویکسین لگائی جائے گی۔
جس انداز میں امیر ممالک ویکسین کی ذخیرہ اندوزی میں جلد بازی سے کام لے رہے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ سال 2021 میں چین اور روس دیگر ممالک پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے کوششیں کریں گے۔
کورونا وائرس کس حد تک دور رس اثرات مرتب کرے گا، اس کے بارے میں کچھ بھی اندازہ لگانا قبل از وقت ہوگا۔
کچھ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر بڑے پیمانے پر ویکسین لگانا شروع کر بھی دیں تب بھی اجتماعی مدافعت پیدا کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔ جبکہ دیگر ماہرین کے خیال میں آئندہ سال کے وسط تک زندگی معمول پر آ سکتی ہے۔
کورونا وائرس کے خلاف اس جنگ کے دوران وائٹ کالر نوکریاں کرنے والوں کے لیے اگرچہ گھر سے کام کرنے کی سہولت موجود ہے لیکن کمرشل کاروبار کرنے والوں کے لیے پھر بھی غیر یقینی کی صورتحال ہے۔
علاوہ ازیں کورونا وائرس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی وجہ سے شہری آزادیوں کے متاثر ہونے پر بھی ماہرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
دیگر ماہرین کی پیش گوئی کے مطابق رش والے مقامت پر جانے کا خوف بھی منفی نتائج مرتب کر سکتا ہے، بالخصوص عوامی ٹرانسپورٹ کے استعمال، ثقافت، کھیل، تفریح اور کروز شپ کی صنعت پر۔
موذی امراض کے ماہر سٹین ورمنڈ کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث ہماری سوسائٹی میں خاطر خواہ تبدیلیاں رونما ہوں گی۔
دوسری جانب عالمی معیشت پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ شدید نوعیت کی کساد بازاری کے خلاف خبردار کر چکا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کا کہنا ہے کہ آئندہ آنے والا معاشی بحران 2008 میں آنے والے سے بھی بد ترین ہو گا۔
وائرس کے پہلے کیس سے لے کر اب تک
گزشتہ سال 2019 کی آخری رات کو جب چینی حکام نے ووہان کے شہر میں سامنے آنے والے نمونیا کے 27 ایسے کیسز کے بارے میں اعلان کیا کہ جس نے ڈاکٹرز کو حیران و پریشان کر کہ رکھ دیا تھا۔
اگلے ہی دن ووہان میں جانوروں کی منڈی خاموشی سے بند کر دی گئی جس کے بارے میں خیال کیا جا رہا تھا کہ وائرس کی ابتدا یہاں سے ہوئی ہے۔
7 جنوری کو چین نے ایک نئی قسم کے وائرس کے شناخت ہونے کا اعلان کیا جس کو بعد میں کووڈ 19 کا نام دیا گیا۔
11 جنوری کو ووہان میں کورونا وائرس کے باعث پہلی موت واقع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایشیائی ممالک کے علاوہ فرانس اور امریکہ میں وائرس پھیلنا شروع ہو گیا۔
جنوری کے آخر تک ووہان شہر میں وائرس اس حد تک پھیل چکا تھا کہ دیگر ممالک اپنے شہریوں کو خصوصی پروازوں کے ذریعے شہر سے نکال رہے تھے۔ وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانے کے لیے ووہان کی 5 کروڑ آبادی کو اپنے گھروں تک محدود کر دیا تھا۔
جیسے جیسے دنیا بھر میں وائرس کے کیسز منظر عام پر آنا شروع ہوئے، ویکسین کی تیاری کی بھاگ دوڑ اتنی ہی تیز ہوتی گئی۔
11 فروری کو ایشیائی ممالک سے باہر کورونا وائرس سے ہونے والی پہلی موت رپورٹ کی گئی جو فرانس میں واقع ہوئی تھی۔ اٹلی کے وائرس کا مرکز بننے کے بعد یورپی ممالک پر دہشت سی طاری ہو گئی تھی۔
اٹلی کے بعد سپین، فرانس اور برطانیہ میں لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا۔ امریکہ نے چین کے بعد یورپ کے لیے اپنی سرحدیں بند کر دیں۔
اپریل کے وسط تک 3 ارب سے زیادہ مخلوق لاک ڈاؤن میں رہ رہی تھی۔ زندگی بالکل تھم کر رہ گئی تھی، سکول کالجز بند کر دیے گئے تھے، تقریبات غیر معینہ مدت کے لیے منسوخ کر دی گئیں تھیں اور اپنوں سے ملنے ملان پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
اس دوران مارکیٹیں اور کاروبار بند ہونے کی وجہ سے کئی افراد اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکہ میں 2 کروڑ افراد بے روز گار ہو چکے ہیں۔
کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری کے بعد حالات میں بہتری آنے کی امید تو پیدا ہوئی ہے لیکن وائرس کی نئی قسم سامنے آنے کے بعد ایک مرتبہ پھر تشویشناک صورتحال پیدا ہوگئی ہے، جس نے اکثر ممالک کو دوبارہ سے سفری پابندیاں عائد کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔