’پاکستان میں اگلی مردم شماری جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ جلد ہوگی‘
’پاکستان میں اگلی مردم شماری جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ جلد ہوگی‘
منگل 29 دسمبر 2020 5:59
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
2017 کی مردم شماری میں پاکستان کی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ بتائی گئی تھی (فوٹو: اے ایف پی)
وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ مردم شماری کے حوالے سے تحفظات دور کروانے کے لیے نئی مردم شماری جلد کروائی جائے گی جس میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے سندھ اور دیگر علاقوں کے عوام کے اعتراض کا حل نکالنے کی کوشش کی جائے گی۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے وفاقی کابینہ کے رکن علی زیدی نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں طے کیا جائے گا کہ اگلی مردم شماری کے لیے انگوٹھے کے نشان یا اور کونسی ٹیکنالوجی استعمال کی جائے تاکہ یہ شکایت سامنے نہ آئے کہ کسی آبادی کو درست نہیں گنا گیا۔
وفاقی وزیر علی زیدی کا مزید کہنا تھا کہ کابینہ نے وسیع تر قومی مفاد میں گزشتہ مردم شماری کے نتائج ماننے کا فیصلہ کیا ہے تاہم یہ بھی فیصلہ کیا گیا ہے کہ اگلی مردم شماری دس سال کے بجائے جلد ہی کروا دی جائے گی۔
یاد رہے کہ وفاقی کابینہ نے گزشتہ ہفتے، سال 2017 میں ہونے والی چھٹی مردم شماری کے نتائج کو مان کر معاملہ مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاہم اس پر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) نے اختلافی نوٹ جمع کرایا اورپارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیرامین الحق نے نئی مردم شماری فوری طور پر کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔
اس کے بعد ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’وزیراعظم نے ایم کیو ایم سے کیے ایک وعدے پرعمل نہیں کیا، ایک مطالبہ پورا نہیں کیا، وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم کے خدشات کے باوجود مردم شماری کو منظور کر لیا؟‘
مردم شماری کا جھگڑا کیا ہے؟
مردم شماری سے مراد ملک کی آبادی کو گنا جانا ہے۔ اس کی اہمیت اس لیے بہت زیادہ ہوتی ہے کہ پاکستان میں صوبوں اور وفاق کے درمیان فنڈز اور دیگر وسائل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں کسی علاقے کو کتنی نمائندگی ملے گی اس کا فیصلہ بھی مردم شماری سے ہی کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ نوکریوں میں بھی آبادی کے لحاظ سے کوٹا رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی صوبہ یا علاقہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کی آبادی کم نظر آئے اور اسے کم وسائل پر گزارا کرنا پڑے۔
پاکستان میں روایتی طور پر مردم شماری دس سال بعد کروائی جاتی ہے۔
سب سے پہلی مردم شماری آزادی کے چار سال بعد 1951 میں ہوئی تھی۔ پھر 1961،1972،1981 اور 1998 میں ہوئی۔
1991 کی مردم شماری سیاسی گہما گہمی کے باعث موخر ہوئی۔ اس کے بعد آخری مردم شماری2017 میں مسلم لیگ نواز کے دورحکومت میں کروائی گئی تھی۔ جس میں پاکستان کی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ بتائی گئی تھی۔
تاہم حکمران جماعت تحریک انصاف اور اتحادی ایم کیو ایم سمیت متعدد جماعتوں نے اس کے نتائج پر اعتراض کیا تھا جس میں سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل ہے۔
زیادہ تر جماعتوں کا اعتراض تھا کہ سندھ خصوصی کراچی کی آبادی کو مردم شماری میں حقیقت سے کم دکھایا گیا ہے۔ تاہم اعتراضات کے باوجود سن 2018 کے انتخابات اسی مردم شماری کے مطابق ہوئے تھے اور اس کے لیے قومی اسمبلی سے ایک قرارداد منظور ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ایک وقت کے لیے اس کے نتائج مان کر الیکشن کروا دیے جائیں تاہم بعد میں اس پر دوبارہ غور کیا جائے گا۔ ایم کیو ایم کا مطالبہ تھا کہ کم ازکم پانچ فیصد بلاکس کا آڈٹ کروایا جائے تاکہ پتا چل سکے کہ مردم شماری میں غلطی تو نہیں ہوئی۔
ایم کیو ایم کا موقف
اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رکن کابینہ امین الحق نے بتایا کہ ان کی جماعت کا موقف ہے کہ پچھلی مردم شماری میں کم از کم سندھ اور کراچی کے تین ہزار بلاکس میں آبادی کو کم گنا گیا ہے۔
یاد رہے کہ ایک بلاک میں قریبا اڑھائی سو گھر ہوتے ہیں۔ امین الحق کے مطابق ایم کیو ایم کا مطالبہ تھا کہ پانچ فیصد بلاکس کا آڈٹ کروایا جائے تاکہ واضح ہو سکے کہ کراچی کی آبادی کو کم تو نہیں گنا گیا؟
انہوں نے کہا کہ کچھ بلاکس میں ایسا بھی ہوا کہ ووٹر زیادہ تھے اور آبادی کم دکھائی گئی تھی۔ انہوں کراچی کے علاقے آرام باغ اور گارڈن ٹاؤن کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ 2017 کی مردم شماری میں یہاں کی آبادی گزشتہ مردم شماری کے مقابلے میں کم دکھائی گئی تھی۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ پورے ملک میں آبادی بڑھے اور ان بلاکس میں کم ہو؟
ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم نے کابینہ میں بھی مردم شماری کے نتائج پر اعتراض کیا تھا اور بعد میں پریس کانفرنس میں بھی یہی موقف دہرایا ہے۔ تاہم اس کے بعد انہیں گورنر سندھ عمران اسماعیل کا فون آیا تھا اور انہوں نے یقین دہانی کروائی ہے کہ اگلی مردم شماری دس سال میں کرنے کے بجائے 2023 کے انتخابات سے قبل کروائی جائے گی۔ یہ ایک اچھی تجویز ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مردم شماری کے حوالے سے تنازعے کے حل کے لیے حکومت نے ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی تھی جس میں ارکان اسمبلی زبیدہ جلال، فہمیدہ مرزا، نورالحق قادری اور خود امین الحق ممبران تھے جبکہ وفاقی وزیر علی زیدی اس کمیٹی کے کنونئیر تھے۔
کمیٹی میں ایم کیو ایم نے تجویز دی تھی کی مردم شماری دس سال بعد نہ کروائی جائے کیونکہ یہ کوئی آئینی شرط نہیں صرف روایت ہے اس لیے اگلی مردم شماری 2022 میں کروائی جائے۔ اس کمیٹی کے پانچ چھ اجلاس ہوئے تھے۔
حکومت کا نئی مردم شماری جلد کروانے پر اتفاق
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر علی زیدی جو مردم شماری کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کے کنونئیر تھے کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے جو تجاویز سب کے نکتہ نظر کو سامنے رکھتے ہوئے دی تھیں کابینہ نے انہیں من و عن منظور کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کابینہ نے طے کیا ہے کہ اگلی مردم شماری کے لیے 2027 کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سلسلے میں کابینہ نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ اگلی مردم شماری میں جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے تاکہ آئندہ آبادی کم گنی جانے کے اعتراضات سامنے نہ آئیں۔
’اس حوالے سے کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وزارت آئی ٹی کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں نادرا، الیکشن کمیشن اور پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے نمائندے موجود ہوں تاکہ ٹیکنالوجی کے بہتر استعمال کو یقینی بنایا جا سکے۔‘
ایک سوال پر کہ اگلی مردم شماری کب ہو گی ان کا کہنا تھا کہ اب یہ ایم کیو ایم کے زیر انتظام کام کرنے والی وزات آئی ٹی کے اوپر ہے کہ وہ جلد کمیٹی کا اجلاس بلائیں۔
’میرے خیال میں تین چار ماہ میں سسٹم ڈیزائن ہو جائے گا پھر باقی انتظامات مکمل کر کے سال ڈیڑھ سال میں مردم شماری مکمل کی جا سکتی ہے۔‘