اتفاق کہیے یا ’حکمت عملی‘ کہ تحریک انصاف کی وہ انتخابی ترجیحات جو ان کے منشور کے صفحہ اول پر موجود تھیں ان میں سے کوئی بھی پوری نہ ہو سکی۔
وزیر اعظم عمران خان نے ہمیشہ گورننس ماڈل میں بلدیاتی انتخابات کا ذکر کیا اور عزم کیا کہ حکومت میں آنے کے بعد ان کی پہلی ترجیح بلدیاتی انتخابات کروانا ہو گی لیکن 2020 کا سورج غروب ہو چکا مگر بلدیاتی انتخابات کا وعدہ پورا نہ ہوا۔
2018 میں جب تحریک انصاف نے حکومت سنبھالی تو اس وقت صوبہ پنجاب میں سابقہ حکومت کا بلدیاتی نظام عملی حالت میں موجود تھا۔
مزید پڑھیں
-
بلدیاتی الیکشن کا تیسرا مرحلہ شروعNode ID: 163746
-
انتخابات کے لئے تیاریاں مکمل ہیں،الیکشن کمیشنNode ID: 241056
-
کراچی کے ضمنی بلدیاتی الیکشن میں ایم کیو ایم کامیابNode ID: 364201
مئی 2019 میں حکومت نے اس بلدیاتی نظام کو زمین بوس کر دیا اور 58 ہزار کونسلرز پر مشتمل بلدیاتی نظام گر گیا اور حکومت نے اعلان کیا کہ اب ایسا بلدیاتی نظام لایا جائے گا جو پہلے سے بہترین ہوگا۔
تحریک انصاف کا بلدیاتی نظام
چار مئی 2019 کو پنجاب کی تحریک انصاف کی حکومت نے صوبے میں نیا بلدیاتی نظام متعارف کروایا۔ اس نئے نظام کے لیے دو ایکٹ پاس کیے گئے۔ ایک ایکٹ ویلج پنچایت اینڈ نیبرہوڈ ایکٹ 2019 جب کہ دوسرا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 کے نام سے ہے۔
اس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اس میں دیہی علاقوں میں ویلج اور پنچایت کونسلز قائم ہوں گی جن کے نمائندگان بلاواسطہ تحصیل کونسل کی تشکیل کریں گے جبکہ شہری علاقوں میں نیبرہوڈ کونسلز بنائی جائیں گی۔