Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

2020 گزر گیا مگر پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا وعدہ پورا نہ ہو سکا

وزیراعظم بننے سے قبل عمران خان کہتے تھے کہ حکومت میں آنے کے بعد بلدیاتی انتخابات ترجیح ہوں گے۔ فوٹو سوشل میڈیا
اتفاق کہیے یا ’حکمت عملی‘ کہ تحریک انصاف کی وہ انتخابی ترجیحات جو ان کے منشور کے صفحہ اول پر موجود تھیں ان میں سے کوئی بھی پوری نہ ہو سکی۔
وزیر اعظم عمران خان نے ہمیشہ گورننس ماڈل میں بلدیاتی انتخابات کا ذکر کیا اور عزم کیا کہ حکومت میں آنے کے بعد ان کی پہلی ترجیح بلدیاتی انتخابات کروانا ہو گی لیکن 2020 کا سورج غروب ہو چکا مگر بلدیاتی انتخابات کا وعدہ پورا نہ ہوا۔  
 2018 میں جب تحریک انصاف نے حکومت سنبھالی تو اس وقت صوبہ پنجاب میں سابقہ حکومت کا بلدیاتی نظام عملی حالت میں موجود تھا۔  
مئی 2019 میں حکومت نے اس بلدیاتی نظام کو زمین بوس کر دیا اور 58 ہزار کونسلرز پر مشتمل بلدیاتی نظام گر گیا اور حکومت نے اعلان کیا کہ اب ایسا بلدیاتی نظام لایا جائے گا جو پہلے سے بہترین ہوگا۔  
 تحریک انصاف کا بلدیاتی نظام 
 چار مئی 2019 کو پنجاب کی تحریک انصاف کی حکومت نے صوبے میں نیا بلدیاتی نظام متعارف کروایا۔ اس نئے نظام کے لیے دو ایکٹ پاس کیے گئے۔ ایک ایکٹ ویلج پنچایت اینڈ نیبرہوڈ ایکٹ 2019 جب کہ دوسرا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 کے نام سے ہے۔ 
اس کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اس میں دیہی علاقوں میں ویلج اور پنچایت کونسلز قائم ہوں گی جن کے نمائندگان بلاواسطہ تحصیل کونسل کی تشکیل کریں گے جبکہ شہری علاقوں میں نیبرہوڈ کونسلز بنائی جائیں گی۔

 


2018 میں تحریک انصاف کی حکومت بنی تو بلدیاتی سیٹ اپ موجود تھا (فوٹو: سوشل میڈیا)

 نئے متعارف کیے گئے نظام کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ ضلع کونسلز کو مکمل ختم کیا گیا جبکہ شہری علاقوں کے تین درجوں میٹروپولیٹین کارپوریشن، میونسپل کارپوریشن اور میونسپل کمیٹی کے سربراہان کے انتخاب کو بھی علیٰحدہ علیٰحدہ طریقے سے کیا گیا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کے نئے بلدیاتی نظام میں بھی منتخب نمائندوں کے اختیارات مسلم لیگ ن کے دور میں بنائے گئے بلدیاتی نظام کے ہم پلہ ہی رہے۔ 
 انتخابات میں تاخیر کیوں؟ 
پنجاب کے وزیر بلدیات راجہ بشارت نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اب ہم ان مشکلات سے نکل چکے ہیں سب سے بڑا مسئلہ کورونا کا تھا جس سے انتخابات تاخیر کا سبب بنے۔ اب ہم نے الیکشن کمیشن کو تحریری طور پر لکھ دیا ہے کہ انتخابات کے لیے تیار ہیں تو وہ اس کا شیڈول جاری کریں۔ اب تو گیند الیکشن کمیشن کے کورٹ میں ہے۔ ابھی ضمنی انتخابات کا شیڈول جاری ہوا ہے تو اس کے کا مطلب ہے کہ اب کام چل پڑا ہے اور اس کے بعد بلدیاتی انتخابات کی باری ہو گی۔‘ 

وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت کہتے ہیں کہ کورونا وبا کے باعث انتخابات کے انعقاد میں تاخیر ہوئی (فوٹو: سوشل میڈیا)

انہوں نے کہا کہ ’ہم تسلیم کرتے ہیں کہ قانونی پیچیدگیوں کو دور کرنے اور نئے ایکٹ کے تحت نئے سرے سے حد بندیوں جو کہ الیکشن کمیشن کا ہی کام تھا، میں کچھ تاخیر ہوئی ہے لیکن اس میں بھی اگر ہمیں کورونا جیسے مرض کا سامنا نہ کرنا پڑتا تو اس وقت صورت حال بہتر ہوتی۔ الیکشن ایکٹ پاس ہونے کے بعد حد بندیاں ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے‘ 
پنجاب کے سابق وزیر قانون رانا ثنا اللہ سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کا نیا بلدیاتی نظام ایک ناقص کوشش ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’یہ غلطیوں سے بھر پور ایکٹ ہے جس میں کئی طرح پیچیدگیاں ہیں۔ ایک تو انہوں نے دیہی سطح پر 22 ہزارسے زائد انتظامی یونٹ بنا دیے جن کا انفراسٹکچر تیار کرنا ان کے بس میں نہیں۔ دوسرا انہوں نے میئر کے انتخاب کو ڈائریکٹ کر دیا ہے یعنی لاہور کا الیکشن دو بار ہو گا۔ پہلے نیبرہوڈ کونسلز کا پھر میئر کا۔‘

رانا ثنا اللہ سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کا نیا بلدیاتی نظام ایک ناقص کوشش ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

’اسی طرح ضلع کونسلز ختم کر کے انہوں نے ڈسٹرکٹ یونٹ ختم کر دیے ہیں ۔ یہ اگلے دس سال بھی لگے رہیں تو اس نئے نظام کے تحت الیکشن نہیں کروا سکتے۔ اب یہ اور کئی ترامیم لے کر آئیں گے۔‘
رانا ثنااللہ نے کہا کہ ’یہ نااہل لوگ ہیں یہ صرف باتوں سے کام چلانا جانتے ہیں اور یہ کورونا کے بارے میں جھوٹ بول رہے ہیں اسی ایکٹ کے اندر لکھا ہے کہ حکومت چھ مہینے کے اندر انتخابات کروانے کی پابند ہو گی۔ مئی 2019 میں ایکٹ پاس ہوا تو مئی نومبر تک الیکشن ہو جانے چاہیے تھے اور کورونا تو مارچ 2020 میں آیا۔ تو کیا یہ کورونا کا انتظار کر رہے تھے کہ وہ آئے تو اپنی نااہلی کا ملبہ اس پر ڈالیں گے۔‘

شیئر: