Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مداح ناپسندیدگی کا اظہار ضرور کریں لیکن بد دعائیں نہ دیں‘

ندا یاسر نے اپنے کیریئر کا آغاز اداکاری سے کیا تھا۔ فوٹو: فیس بک
مورننگ شو کی معروف میزبان ندا یاسر کا کہنا ہے کہ پروگرام کی میزبانی کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کا دل اداکاری سے بھر گیا ہے بلکہ اداکاری سے دوری کی وجہ گھریلو مصروفیت ہے۔
ندا یاسر نے اردو نیوز کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ وہ ایسا کام کرنا چاہتی ہیں جس سے ان کا گھر اور بچے ڈسٹرب نہ ہوں اسی لیے میزبانی کو اداکاری پر فی الوقت ترجیح دے رہی ہیں۔
ندا کا کہنا ہے کہ انہوں نے اداکاری سے کیریئر کا آغاز کیا اور شوز کی میزبانی کا بالکل تجربہ نہیں ہے۔
’میں نے ہر دن خود کو پالش کیا اور آج تک کر رہی ہوں، اپنی کمیوں خامیوں کو دور کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہوں۔‘
ندا یاسر نے اداکاری کے حوالے سے کہا کہ ’سکرپٹ پڑھنا پڑتا ہے، کردار کو سمجھنا اور پھر اس میں ڈھلنا پڑتا ہے لیکن ہوسٹنگ میں ایسا نہیں ہے، ہم جو حقیقت میں ہیں، ویسے ہی نظر آتے ہیں۔ اس میں بناوٹ نہیں کرنی پڑتی نہ ہی میں بناوٹ پر یقین رکھتی ہوں۔‘
ندا نے اپنی اردو دیگر میزبانوں سے بہتر ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ان کے والدین پی ٹی وی کا بیگ گراﺅند رکھتے ہیں اور انہوں نے ہی تلفظ ٹھیک کرنے میں مدد کی۔
’میری کو شش ہوتی ہے کہ اپنے پروگرام کے ذریعے خواتین میں آگہی پیدا کروں، تعلیم صرف کتابوں سے ہی نہیں بلکہ ہر چیز سے ملتی ہے۔ گھر بیٹھی عورتوں کو کوکنگ سکھانا، بچوں کی پرورش کے حوالے سے گفتگو کرنا وغیرہ یہ سب تعلیم کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ میری کوشش ہوتی ہے کہ میں اور میری باتیں خواتین کے لیے انسپریشن ہوں۔‘

ندا یاسر صرف یاسر نواز کے بنائے گئے ڈراموں میں کام کرنا چاہتی ہیں۔ فوٹو: فیس بک

ایک سوال کے جواب میں ندا یاسر نے کہا کہ ’مارننگ شوز کو آج بھی بہت شوق سے دیکھا جاتا ہے، خواتین کی ایک بڑی تعداد مارننگ شوز دیکھنے میں دلچپسی رکھتی ہے اور میرا پروگرام دیکھا جا رہا ہے تو ہی ابھی تک چل رہا ہے ورنہ بند ہو جاتا۔‘
ندا اچھا میزبان اس کو سمجھتی ہیں جو اچھا سننے، بولنے اور لکھنے والا ہو، جو باتوں سے بات نکالے اور سامنے بیٹھے مہمانوں سے باتیں نکلوانے کا ہنر جانتا ہو۔
مارننگ شوز کے سیٹ پر شادیاں کروانے کے عمل کو کچھ لوگ اچھا نہیں سمجھتے اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہر کسی کو حق ہے کہ وہ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرے لیکن یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ بعض اوقات ہم باتوں سے کسی کو قائل نہیں کر سکتے۔
’ہم اگر سیٹ پر شادی کرواتے ہیں تو مقصد یہی ہوتا ہے غریب لوگوں کی بیٹیوں کی مدد کی جائے۔
’ہمارے معاشرے میں عام عورت کے لیے انٹرٹینمنٹ صرف شادی بیاہ کی تقریبات ہی ہوتی ہیں، اس لیے ہم ان کو یہ آگہی بھی دیتے ہیں کہ انہیں شادی بیاہ میں کیا پہننا اوڑھنا چاہیے۔‘

ندا یاسر کئی کوکنگ اور مورننگ شوز کی میزبانی کر چکی ہیں۔ فوٹو: فیس بک

ندا کا کہنا ہے کہ ’کسی کو بھی پسند یا نہ پسند کرنے کی آزادی ہر شخص کو ہے لیکن بعض اوقات پرستار اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ نا پسندیدگی کا اظہار کرنے میں کہ ماں بہن کی گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں، بد دعائیں دینا شروع کر دیتے ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔‘
ندا یاسر نے فینز کے رویے کے حوالے سے کہا کہ ’فنکار اپنی فیملی کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے، لہٰذا اگر وہ کہیں ویک اینڈ پہ فیملی کے ساتھ باہر چلے جائیں تو کچھ فینز یہ بھی نہیں دیکھتے کہ فیملی کے ساتھ ہیں، تیار ہیں یا نہیں وہ موبائل پکڑ کر سر پہ کھڑے ہوجاتے ہیں جو کہ بہت ہی غلط بات ہے۔
’تمام فنکاروں میں عجز و انکساری ہوتی ہے وہ اپنے پرستاروں کے ساتھ بہت محبت کرتے ہیں، ان کے پیار کی قدر کرتے ہیں لیکن پرستاروں کو موقع محل دیکھ لینا چاہیے کہ اگلہ جو نظر آرہا ہے وہ کس کے ساتھ ہے اور موقع کیا ہے۔‘
ندا یاسر صرف اپنے شوہر یاسر نواز کی ہدایتکاری میں بننے والے ڈراموں میں کام کرنا چاہتی ہیں، جس کا ان کے نزدیک ایک فائدہ یہ ہوگا کہ شوہر ان کے بچوں کی مصروفیت کو مد نطر رکھتے ہوئے کام لیں گے۔
’میں پاکستانی ڈراموں کی مداح ہوں، ہمارے ڈرامے آج بھی بہت اچھے ہیں۔ انڈیا کے لوگ آج بھی ہمارے ڈرامے کو دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ ایک وقت آیا تھا جب سٹار پلس سے متاثر ہو کر ڈرامے بننا شروع ہو گئے تھے لیکن بہت جلد اس پر قابو پا لیا گیا ۔آج ہر طرح کا ڈرامہ بن رہا ہے، ہر ایشو کو کہانی کے ذریعے ڈسکس کیا جا رہا ہے جو کہ بہت ہی خوش آئند ہے۔‘

ندا یاسر کا کہنا ہے کہ وہ سجل علی کی اداکاری سے بہت متاثر ہیں۔ فوٹو: فیس بک

ندا نے اپنے شوہر یاسر نواز کے حوالے سے کہا کہ وہ ایک بہت ہی اچھے اداکار ہیں۔
’نیچرل اداکاری ان کی خاصیت ہے، اس کے علاوہ سجل علی کی اداکاری سے بھی بہت متاثر ہوں۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یاسر ہدایت کاری میں اپنا نام بنا چکے ہیں، لوگ جانتے ہیں کہ یاسر بہت بہترین ڈائریکٹر ہیں لہٰذا مجھے اور گھر والوں کو لگا کہ یاسر کو اداکاری کی طرف واپس آنا چاہیے ہم نے انہیں منا کر دوبارہ اداکاری کی طرف مائل کیا۔
’ہمارے ہاں بننے والی فلمیں اچھی ہیں اور بہت بہترین ڈائریکٹر بھی ہیں جو اچھی فلمیں بنانا جانتے ہیں، انہیں آگے آنا چاہیے۔ فلم انڈسٹری کے لیے اگلے دو سال بہت ہی اہم ہوں گے کیونکہ بہت ساری فلمیں بنی پڑی ہیں جو کرونا کی وجہ سے ریلیز نہیں ہو سکیں۔ لیکن جب وہ ایک کے بعد ایک کر کے ریلیز ہوں گی تو لوگ نہ صرف لطف اندوز ہوں گے بلکہ فلمی صنعت کے لیے بھی خوش آئند ہوگا۔

شیئر: