اللہ وسائی سے نُور جہاں تک، ’میڈم بہت گلیمرس تھیں‘
اللہ وسائی سے نُور جہاں تک، ’میڈم بہت گلیمرس تھیں‘
بدھ 23 دسمبر 2020 7:02
آمنہ کنول
اداکارہ ’انجمن‘ کا کہنا ہے کہ وہ الفاظ کہاں سے لاﺅں جو میڈم نور جہاں کے فن کو بیان کریں (فوٹو: اردو نیوز)
اللہ وسائی سے ملکہ ترنم کا خطاب پانے والی نور جہاں جنہیں موسیقی کی ہر صنف پر عبور حاصل تھا انہیں دنیا سے رخصت ہوئے 20 برس ہو گئے ہیں۔ ان کی گائیکی کی وجہ سے وہ آج بھی اپنے چاہنے والوں کے دِلوں میں زندہ ہیں۔ کم عمری میں ہی موسیقی کی تعلیم حاصل کی۔ اداکاری میں بھی قسمت آزمائی، ہدایت کاری بھی کی۔
پاکستان فلم انڈسٹری کی تاریخ کی بات کریں تو میڈم نور جہاں کا ذکر نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی آواز ہر ہیروئن کو دی۔ ان ہیروئنز میں سے چند ایک سے ’اردو نیوز‘ نے نور جہاں کی بیسویں برسی کے موقع پر بات کی۔ ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے انہوں نے میڈم نور جہاں کے بارے میں کچھ یوں بات کی۔
اداکارہ ’انجمن‘ نے کہا کہ وہ الفاظ کہاں سے لاﺅں جو میڈم نور جہاں کے فن کو بیان کریں اور ان کی تعریف پر پورا اتریں۔
انہوں نے کہا کہ ’ان کی آواز میں گائے ہوئے گیت ہر اداکارہ پر پکچرائز ہوئے لیکن وہ مجھے اکثر کہا کرتی تھیں کہ انجمن ’توں میرے گانے نال صحیح انصاف کردی ایں‘ ان کے یہ کلمات میرے لیے کسی ایوارڈ سے کم نہیں تھے۔ میں خود کو بہت ہی خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ مجھ پہ ان کے گانے پکچرائز ہوئے۔‘
انجمن نے بتایا کہ ’گانا گانے سے پہلے موسیقاروں سے پوچھا کرتی تھیں کہ یہ گانا کس پر پکچرائز ہو رہا ہے۔ جب انہیں پتا چلتا کہ انجمن پر پکچرائز ہو گا تو وہ خوشی کا اظہار کیا کرتی تھیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں کئی انٹرویوز میں بتا چکی ہوں کہ انہوں نے مجھے ایک بار دعا دی کہ ’جا انجمن آج توں بعد میری دعا اے، جدوں میرا گانا تیرے تے ہووے لوگ مینوں بُھل جان تینوں یاد رکھن۔‘ میڈم نور جہاں مجھ پر پکچرائز ہونے والے گانے اکثر سنیما میں جا کر دیکھا کرتی تھیں۔‘
انجمن کا کہنا تھا کہ ’مجھے یاد ہے کہ فلم ’اللہ رکھا‘ میں میڈم کا مجھ پر ایک گیت پکچرائز ہوا تھا جس کے بول تھے ’سر توں دوپٹہ میرا سینے تے ڈگیا‘ اس گانے پر میرا ڈانس ان کو اتنا پسند آیا کہ وہ سنیما میں فلم دیکھنے گئیں اور دو بار اس گانے کو چلوایا۔
انجمن کا کہنا تھا کہ ’میڈم اپنے سے جونیئرز کی بہت ہی زیادہ حوصلہ افزائی کیا کرتی تھیں وہ جس کو بھی دعا دیتی تھیں وہ سٹار بہت آگے جاتا تھا۔ اداکاری ہو یا گلوکاری دونوں شعبوں میں انہوں نے اپنا ایسا مقام بنایا ہے کہ جس تک پہنچنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔‘
اداکارہ ’دیبا بیگم‘ کہتی ہیں کہ ’نور جہاں بڑی فنکارہ تھیں ہم ان کے لیے کیا بات کرسکتے ہیں۔ بھلے وہ دنیا سے چلی گئیں لیکن آج بھی ان کے گیت سن کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ ادھر ہی ہیں ہمارے ارد گرد ہیں۔‘
دیبا بیگم نور جہاں کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ’میڈم حد درجہ خوش اخلاق اور بہت ہی پیار کرنے والی خاتون تھیں۔ سینیئر ہوں یا جونیئر، سب کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آتی تھیں۔ ہر ہیروئن کے لیے پیار سے گاتی تھیں۔ ان کے یادگار گیت ہم پر پکچرائز ہوئے تو ہمیں مزید شہرت ملی۔‘
دیبا بیگم بتاتی ہیں کہ ’ان کے گانے اور آواز میں اتنا ایکسپریشن ہوتا تھا کہ ہم ہیروئنز کو ایکسپریشن دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھیں۔ مجھ پر ان کا گیت ’تیرے بنا یوں گھڑیاں بیتیں، جیسے صدیاں بیت گئیں‘ پکچرائز ہوا یہ سولو گیت تھا۔ ایورنیو سٹوڈیو میں سیٹ لگا ہوا تھا۔ اس گانے نے بھی اُس وقت بہت شہرت حاصل کی۔
دیبا بیگم کا کہنا تھا کہ ’مجھے یاد ہے کہ میڈم کے گھر میں اگر تقریبات ہوتی تھیں تو ان میں بھی میں مدعو ہوتی تھی۔ میڈم پیار سے مجھے کہا کرتی تھیں ’دیبو آجا بیہہ جا میرے کول۔‘ مجھ پر ان کا گانا ’سجنا دور دیا پکچرائز ہوا اس میں پرفارمنس بھی اچھی ہو گئی مجھ سے تو وہ خاص طور پر مجھے مبارک باد دینے آئیں اور کہا کہ دیبا مجھے یقین نہیں تھا کہ تم اس قدر خوب صورت انداز میں گانا پکچرائز کراﺅ گی۔ ان کا آنا مبارک باد دینا، میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھا، مجھے کہنے لگیں ’دیبو تمہیں اللہ بہت عزت دے گا۔‘
دیبا بیگم نے بتایا کہ ’ہم جب بھی اکٹھے ہوتے تو میڈم ہمیں گانے سناتیں، اپنے خانساماں سے مزے مزے کے کھانے بنوانے کا ان کو شوق تھا، وہ چاہتی تھیں کہ کھانے کی ٹیبل سجے تو بہت سارے لوگ موجود ہوں۔
میڈم غصہ کیا کرتی تھیں لیکن مجھے کبھی بھی ان کے غصے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہاں اکثر میوزک ڈائریکٹر یا فلم ڈائریکٹر کو گانے کی پکچرائزیشن پسند نہ آنے پر ڈانٹ دیا کرتی تھیں۔ گانے کی ریکارڈنگ پر اکثر وہ ہم ہیروئنز کو بلا لیا کرتی تھیں۔
دیبا بیگم کا کہنا تھا ’تیار ہونا ان پر ختم تھا۔ میک اپ خود کیا کرتی تھیں یا کبھی کروا بھی لیا کرتی تھیں۔ ساڑھیوں کی باکمال کلیکشن ان کے پاس تھی۔ ہر بار ایک نئی ساڑھی میں ملبوس نظر آتیں۔ کسی کی لپ سٹک یا نیل پالش اچھی لگتی تو اسے کہتیں کہ مجھے بھی لا کر دو۔‘
اداکارہ نشو بیگم کہتی ہیں کہ ’ان کی آواز ہم ہیروئنز کی پہچان بنی۔ ان کی آواز میں گائے ہوئے گیت کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے۔ بعض اوقات ایسا ہوتا تھا کہ فلم فلاپ ہوجاتی تھی اور گانا ہٹ ہوجاتا تھا۔
نشو بیگم نے بتایا کہ ’میڈم ہمارے ملک کا ایسا سرمایہ تھیں کہ جنہیں ہمسایہ ملک میں بھی خاصی پذیرائی ملی۔ ان کے گیت پکچرائز کروانے میں بہت آسانی ہوتی تھی کیونکہ انہوں نے بہت ہی زبردست انداز میں گایا ہوتا تھا۔ ہیروئن کو صرف لپ سنگ کرنا پڑتی تھی۔ باقی ایکسپریشنز گانے میں پہلے سے ہی موجود ہوتے تھے جو ہماری پرفارمنس سے میچ کر جاتے تھے۔
نشو بیگم نور جہاں کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ’میڈم بہت ہی گلیمرس تھیں، انہیں دیکھتے ہی رہنے کو دل کرتا تھا۔ مجھے کہا کرتی تھیں کہ ’نشو پتر توں بہت سادہ بن کے ریندی ایں ذرا سج کے ریا کر‘۔ ان کی اس نصیحت کے بعد میں نے سج کر رہنا شروع کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’نور جہاں بہت زیادہ آرٹسٹک خاتون تھیں۔ ان کی بات جب سامنے والا نہیں سمجھ پاتا تھا تو انہیں غصہ آجاتا تھا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ میڈم کا گانا کسی نئی ہیروئن پر پکچرائز ہوتا تو میرے اندر کی فنکارہ کا دل کرتا تھا کہ کاش یہ گانا مجھ پر پکچرائز ہوجاتا۔ میں بہتر انداز میں پرفارم کرتی۔ میڈم زیادہ تر پنجابی بولتی تھیں ان میں بناوٹ نہیں تھی جو دل میں ہوتا تھا وہی زبان پر ہوتا تھا۔
اداکارہ عالیہ بیگم نے کہا کہ ’میڈم کے مجھ پر بہت گانے پکچرائز ہوئے ہیں۔ ان کو باقاعدہ بتایا جاتا تھا کہ کس ہیروئن پر گانا پکچرائز ہونا ہے۔ وہ اسی حساب سے اپنی آواز کا موڈ تبدیل کر لیتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ جتنی بڑی فنکارہ تھیں اس سے کہیں بڑی انسان بھی تھیں۔ جس ہیروئن پر بھی ان کا گانا پکچرائز ہوتا وہ فخر محسوس کرتی تھی۔
عالیہ بیگم نے بتایا کہ ’میں نے ان جیسی نفیس خاتون کہیں نہیں دیکھی۔ مجھ سے اکثر ان کی ملاقات رہتی تھی۔ ان کے ساتھ گزرا وقت اگر بتانے بیٹھوں تو بہت وقت لگ جائے۔ پیار بھرے لہجے میں مجھے کہا کرتی تھیں میرا بچہ ’توں بڑی سوہنی لگ رہی ایں۔‘ وہ اکثر میرے گالوں پہ پیار کیا کرتی تھیں۔
عالیہ بیگم نے بتایا کہ ’ان کو جب پہلی بار ہارٹ اٹیک ہوا تو وہ ٹھیک ہو کر آئیں تو سب نے اس خوشی میں ان کی دعوتیں کیں تو میں نے بھی دعوت کی۔ ’میں نے ان کے سامنے ہلکا پھلکا ڈانس بھی کیا تو وہ بہت خوش ہوئیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے جب بھی پتا لگتا کہ ان کا گانا کہیں ریکارڈ ہو رہا ہے تو میں وہاں ان کو سلام کرنے پہنچ جایا کرتی تھیں۔ وہ آج ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کا فن اتنا بڑا ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے گے اور نئے لوگوں کے لیے مشعل راہ کا کام دیتا رہے گا۔