سعودی ویکسین کے لیے غیرمعمولی منفی درجہ حرارت کی ضرورت نہیں(فوٹو عرب نیوز(
سعودی عرب میں امام عبدالرحمن بن فیصل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ایمان المنصور نے کورونا کی سعودی ویکسین اور دنیا کے دیگر ملکوں کی ویکسینوں کے درمیان فرق کی وضاحت کی ہے۔
الاخباریہ چینل کے معروف پروگرام ’ون ٹو زیرو‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر ایمان المنصور نے کہا کہ’ سعودی ویکسین ڈی این اے ٹیکنالوجی پر منحصر ہے۔ اس کے لیے غیرمعمولی منفی درجہ حرارت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ یہ ویکسین ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں مشکل نہیں ہوتی‘۔
انہوں نے کہا کہ ’سعودی ویکسین کو 4 سینٹی گریڈ ٹھنڈے ماحول میں محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں اسے مکمل ایک برس تک ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ اس خوبی کا فائدہ ان ملکوں کو زیادہ ہوگا جہاں ویکسین کے تحفظ اور اسے دور دراز علاقوں تک پہنچانے کا انتظام نہیں ہے‘۔
سعودی ویکسین سکالرز ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر ایمان المنصور کا کہنا تھا کہ ’ای کلینکل ٹرائلز کے مرحلے سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کے بعد ہی یہ دعوی کیا جاسکے گا کہ یہ ویکسین کس حد تک محفوظ ہے جبکہ اگلے مرحلے میں ویکسین کے موثر ہونے کا پتہ لگایا جائے گا‘۔
ڈاکٹر ایمان المنصور نے مزید کہا کہ ’سعودی ویکسین جس جس مرحلے سے گزرے گی اس کی تجزیاتی رپورٹ جاری کی جاتی رہے گی۔ تمام مراحل میں کامیابی کے بعد ہی سعودی ویکسین کی تیاری کا اجازت نامہ جاری ہوگا۔ اس ساری کارروائی میں لگ بھگ 8 ماہ صرف ہوں گے‘۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز امام عبدالرحمن یونیورسٹی نے ٹوئٹر کے سرکاری اکاؤنٹ پر بیان میں کہا تھا کہ’ یہ ویکسین ڈاکٹر ایمان المنصور کی قیادت میں سکالر کی ایک ٹیم نے تیار کی ہے۔ ابتدائی تجربات کرلیے گئے۔ حتمی منظوری کے بعد ای کلینکل ٹرائلز شروع کیے جائیں گے‘۔