بائیڈن انتطامیہ نے جمعے کو کہا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ کی جانے والی تاریخی امریکی ڈیل کا پھر سے جائزہ لیں گے۔
فرانسسیسی خبر ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ کیا طالبان جنگجووں نے معاہدے کے اپنے حصے کی پاسداری کرتے ہوئے افغانستان میں حملوں میں کمی کی ہے یا نہیں۔
واشنگٹن نے گزشتہ سال قطر میں طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا تاکہ عسکریت پسندوں سے سکیورٹی ضمانتوں اور افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے کے بدلے اپنی فوجوں کا انخلا شروع کریں۔
مزید پڑھیں
-
پومپیو دوحہ میں طالبان سے ملاقات کریں گےNode ID: 519371
-
ڈرون سے بم حملے، طالبان کا نیا ہتھیارNode ID: 519991
لیکن ستمبر کے بعد سے دونوں فریقین میں مذاکرات کے باوجود پورے افغانستان میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔
نیشنل سکیورٹی کونسل کی ترجمان ایملی ہورن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن کے نئے منتخب کردہ نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر جیک سلیوان نے اپنے افغان ہم منصب حمداللہ محب سے بات کی ہے اور ’واضح کیا ہے کہ امریکہ ڈیل پر نظرثانی کا ارادہ رکھتا ہے۔‘
انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ واشنگٹن خاص طور پر یہ جائزہ لینا چاہتا ہے کہ کیا طالبان’دہشت گرد گروہوں سے اپنے رابطے منقطع کرنے، افغانستان میں تشدد میں کمی اور افغان حکومت اور دوسرے فریقین کے ساتھ بامقصد مذاکرات کے اپنے وعدوں پر عمل پیرا ہیں۔‘
دوسری جانب افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر محیب نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ بات چیت کے دوران دونوں فریقوں نے ’ملک میں مستقل جنگ بندی اور ایک منصفانہ اور پائیدار امن کی طرف کام کرنے پر اتفاق کیا۔‘
نائب وزیر داخلہ اور صدر اشرف غنی کے سابق ترجمان صدیق صدیقی نے بھی ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس معاہدے سے اب تک طالبان کے تشدد کے خاتمے اور افغانوں کی طرف سے سیزفائر کی خواہش کا مطلوبہ مقصد حاصل نہیں ہوا۔‘
