Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان میں اہم شخصیات پر قاتلانہ حملوں کے ذمہ دار طالبان: امریکہ

افغانستان میں قاتلانہ حملوں کی نئی لہر میں 5 صحافی ہلاک ہو چکے ہیں۔ فوٹو اے ایف پی
امریکی فوج نے افغانستان میں اہم شخصیات پر ہونے والے قاتلانہ حملوں کا ذمہ دار طالبان کو ٹھہرایا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق افغانستان میں امریکی افواج کے ترجمان کرنل سونی لیگٹ نے کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے حکومتی اہلکاروں، سول سوسائٹی اور صحافیوں کی ٹارگٹ کلنگ کی مہم کو بند ہونا چاہیے تاکہ امن کی کوششیں کامیاب ہو سکیں۔
خیال رہے کہ افغانستان میں چند مہینے پہلے قاتلانہ حملوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے جس میں ملک کی اہم شخصیات کو نشان بنایا جا رہا ہے۔ 
گزشتہ سال نومبر سے اب تک کابل کے نائب گورنر اور پانچ صحافیوں کے علاوہ افغان انتخابی عمل کی نگران تنظیم کے سربراہ یوسف رشید کو قتل کیا جا چکا ہے۔
افغانستان میں امریکی افواج کے ترجمان کرنل سونی لیگٹ کا کہنا تھا کہ امریکہ طالبان کے حملوں کے خلاف افغانستان کی افواج کا دفاع کرتا رہے گا۔
امریکہ کی جانب سے یہ الزام ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان منگل سے امن مذاکرات کا دوبارہ سے آغاز  ہونے جا رہا ہے۔
افغان حکومتی عہدیدار بھی حالیہ قاتلانہ حملوں کا ذمہ دار طالبان کو ٹھہراتے ہیں۔
دوسری جانب طالبان نے ان الزامات کو ہمیشہ مسترد کیا ہے، جبکہ ان میں سے کچھ حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔

افغانستان میں ہونے والے چند حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

امریکی الزام سے پہلے طالبان نے صوبہ قندھار، ننگرہار اور ہلمند میں حالیہ فضائی حملوں کا الزام امریکی افواج پر عائد کیا تھا۔
طالبان کا کہنا تھا کہ فضائی حملے فروری 2020 میں ہونے والے امن معاہدے کی خلاف ورزی ہیں۔
قطر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے امن معاہدے کے مطابق تمام غیر ملکی افواج مئی 2021 تک افغانستان سے نکل جائیں گی۔
علاوہ ازیں امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد بھی قطر پہنچ گئے ہیں جہاں وہ طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں  سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کریں گے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق خلیل زاد کے دورے کا مقصد افغانستان میں جنگ بندی اور تشدد میں فوری کمی کے علاوہ شراکت اقتدار کے معاہدے کو حتمی شکل دینا ہے۔
زلمے خلیل زاد کا قطر کے بعد افغانستان، پاکستان اور ترکمانستان کا دورہ بھی متوقع ہے۔

شیئر: